کالم

سوشل میڈیا اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام

عصر حاضر میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ایک سے زائد آراءموجود ہیں مگر اس کے باصف ایک بات طے ہے کہ مذکورہ پلیٹ فارم کا استمعال ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے ہرگز نہیں ہونا چاہے، مثلا اس رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی کہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے ہی ملکی اداروں کے خلاف بروئے کار لایا جائے، اس سچ سے انکار نہیں کیا جاسکتا ماضی کے برعکس ہمارے ہاں معاشرتی یا پھر صحافتی اصولوں و قدروں کا فقدان پایا جاتا ہے، اس تجربہ کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ چند دہائیوں قبل لوگ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات بارے خاصے حساس تھے، والدین یا پھر رشتہ دار تو دور گلی محلوں میں بھی بزرگوں کے احترام کی روایات پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا، بظاہر اس کی وجہ یہ بنی کہ ایک طرف جہاں جدید ٹیکنالوجی نے معلومات اور رابطوں میں رسائی کو آسان بنایا وہی معاشرتی رویے بھی بدل کر رکھ دئیے،آج حالات یہ ہوچکے کہ عالمی و علاقائی طاقتیں سوشل میڈیا پر اپنے اہداف کے حصول کےلئے متحرک ہیں، ادھر معاشی صورت حال کو بنیاد بنا کر مختلف عالمی کمپنیاں اپنے برانڈز کی تشہیر کےلئے جائز ناجائز زرائع کو بروئے کار لارہی ہیں،اس پس منظر میں ہماری معاشرتی روایات تیزی کے ساتھ بدل رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل اس قدر برق رفتار ہے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس کے آگے بندھ باندھنے میں کامیاب نہیں ہورہا،اس سوال کا جواب یقینا ہمارے اہل فکر ونظر کو دینا ہوگا کہ سوشل میڈیا کی یلغار کا مقابلہ کرنےکےلیے آخر ان کی حکمت عملی ہے کیا، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے مرد وخواتین درپیش صورت حال میں بھرپور مزاحمت نہیں کرپارہے، ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ خود حکومت یا ریاست کا کردار اصلاح احوال بارے کتنا موثر رہ گیا ہے، یقینا بہتری کی گنجائش ہمہ وقت موجود رہتی ہے، درست ہے کہ ہم میں سے وہی سوشل میڈیا پر تعمیری کردارادا کرسکتا ہے جو منفی عزائم کا حامل نہ ہو، معاملہ یہ ہے کہ پاکستان چونکہ ترقی پذیر ملک ہے ہمارے ہاں خواندگی کی شرح بھی تسلی بخش نہیں چنانچہ یہ امید کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں کہ یہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال مثالی انداز میں کیا جائے، سوشل میڈیا کا ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اس میں مشہور ومعروف ہونے والا مرد وعورت راتوں رات نہ صرف سٹار بن جاتا ہے بلکہ باآسانی معقول آمدن کا حصول بھی ممکن ہوسکتا ہے، دراصل یہی وہ پہلو ہے جس نے سماج میں ریس کی سی کفیت پیدا کر رکھی ہے، دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زریعہ دولت اور شہرت کے حصول کے متمنی مرد وزن جھوٹ فریب اور دروغ گوئی سے کام لے کر تیزی سے ”کامیابی” کی منازل طے کررہے ہیں، یہی وہ تاریک پہلو ہے جس کو بیناد بنا کر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے یہ ارباب اختیار سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مذکورہ اہم پلیٹ فارم پر چیک اینڈ بیلسن کا ایسا نظام لاگو کیا جائے جو ایک طرف اظہار خیال کی آزادی پر قدغن نہ لگائے تو دوسری جانب کسی عام وخاص کی ہتک کا سامان بھی مہیا نہ ہوسکے، حالیہ سالوں میں سوشل میڈیا پر سچ وجھوٹ پر مبنی سیاسی مواد نے حکومت کی مشکلات بڑھا دی ہیں، اب اگر کسی ایک پارٹی کے رہنما یا کارکن کو قانون کی خلاف ورزی پر پوچھ گچھ کی جاتی ہے تو وہ اسے با آسانی انتقامی کارروائی قرار دے ڈالتا ہے، ایک اعتراض جو تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ یہ کہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی چنانچہ یہ کہنا بلاجواز ہے کہ سوشل میڈیا کے زریعے ہماری اقدار و روایات کو تبدیل کرنےکی کوشش کی جارہی ہے،سچ یہ ہے کہ اقوام عالم میں مسلمہ اخلاقی اصولوں پر اتفاق ہوچکا، مثلا جھوٹ بولنا، خیانت کرنا، اپنے فرائض ادا نہ کرنا، کسی کی حق تلفی کرنا، قانون توڑنا، خواتین سے بدسلوکی، بزرگوں کا احترام نہ کرنا، اپنے ماتحتوں سے اچھا سلوک نہ کرنا غرض ایسے بہت سارے عالمی قوائد وضوابط ہیں جن پر دنیا کے کسی بھی خطے میں عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں انفرادی اور اجمتاعی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑسسکتا ہے،اب بطور پاکستانی ہمیں بھی مذکورہ اصولوں کو سوشل میڈیا کے استعمال کے وقت اچھی طرح زھن نشین کرنے کی ضرورت ہے، مثلا وقت آگیا ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ معاشرے میں اچھائی کا فروغ اور برائی کا قلع قمع کیسے کیا جاسکتا ہے، دراصل جدید دنیا دو بنیادی اصولوں پر عمل پیراءہے ایک آئین اور قانون کی حکمرانی دوسرا یہ کہ بتدریج عوام کی ایسی تربیت کی جائے کہ ہر کوئی معاشرے میں صحت مندانہ روایات کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے، یقینا مذکورہ دونوں صورتوں میں حکومت کے عمل دخل کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس پس منظر میں لازم ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو باخوبی یہ احساس دلایا جائے کہ وہ کسی صورت مادر پدر آزاد نہیں۔ بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال بارے ہمارے ہاں جو قوانین رائج ہیں ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کرکے ایسی فضا پیدا کی جاسکتی ہے جسے بجا طور پر صحت مندانہ کہا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے