کالم

سوشل میڈیا حقائق کی دنیا یا فتنوں کا دور

دنیا بدل چکی ہے آج انسان کی جیب میں رکھا ایک چھوٹا سا موبائل فون پوری دنیا کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے خبر، رائے، تصویر یا ویڈیو لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے یہ انقلاب سوشل میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے انسانوں کو قریب تو کر دیا مگر دلوں کے فاصلے کہیں بڑھا بھی دیئے۔سوشل میڈیا کے پاس وہ طاقت ہے جو کبھی صرف حکومتوں یا میڈیا اداروں کے پاس ہوا کرتی تھی اب ایک عام شخص بھی اپنے موبائل سے ایسی ویڈیو شیئر کر سکتا ہے جو کسی بڑی خبر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا نے ہمیں حقائق کے قریب کیا ہے یا ہمیں فتنوں کے ایک ایسے دور میں دھکیل دیا ہے جہاں سچ اور جھوٹ کی پہچان تقریبا ناممکن ہو گئی ہے؟
سوشل میڈیا نے معلومات کی دنیا میں انقلاب تو برپا کیا ہے۔ اب کوئی بات چھپی نہیں رہتی، کوئی خبر دبائی نہیں جا سکتی جہاں مین اسٹریم میڈیا اکثر اداروں حکومتی دباؤ، تجارتی مفادات یا مخصوص بیانیوں کے تابع ہوتا ہے، وہاں سوشل میڈیا نے عوام کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ خود تجزیہ کریں، سوال اٹھائیں اور سچائی جان سکیں۔دنیا کے کئی خطوں میں یہ پلیٹ فارم مظلوموں کی آواز بن کر ابھرا۔ مقبوضہ کشمیر ہو یا فلسطین، جہاں برسوں ظلم اور جبر کے مناظر چھپائے جاتے رہے، سوشل میڈیا نے سب کچھ دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ چند سال پہلے امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کی ایک مختصر ویڈیو نے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تحریک کو نئی روح دی اور گوروں نے کالوں کے لئے آواز اٹھائی پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب کسی گاؤں یا قصبے کی خبر بھی چند سیکنڈ میں عالمی میڈیا تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا نے عام شہری کو بااختیار بنا دیا ہے اب وہ صرف ناظر نہیں بلکہ خود ایک رپورٹر، تجزیہ کار اور آواز بن چکا ہے۔تاہم پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا پر عوام کا اعتماد تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام اب سوشل میڈیا کے ذریعے براہِ راست حقائق تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ جب حکومتیں خبریں اور تجزیے اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کرتی ہیں تو عوام ان سے لاتعلق ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً حکومت اور عوام کے درمیان فکری فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے، اور جتنا یہ فاصلہ بڑھتا ہے، اتنا ہی حکومتی بیانیہ کمزور ہوتا ہے آج مین اسٹریم میڈیا کے بڑے ادارے اکثر سیاسی یا مالی مفادات کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مخصوص تجزیے عوامی رائے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اسی خلا کو سوشل میڈیا نے پر کیا مگر یہاں بھی سچ اور جھوٹ کی لکیر دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں عوام کو اظہار کی آزادی دی، وہیں اس آزادی کے غلط استعمال نے معاشرے میں فتنہ، نفرت اور انتشار کو جنم دیا ہے۔ جبکہ خاندانی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جھوٹی خبریں، من گھڑت ویڈیوز، اور بغیر تصدیق کے پھیلائی جانے والی پوسٹس نے لاکھوں زندگیاں متاثر کی ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں برطانیہ میں مسلمانوں کی مساجد پر حملے ایک جھوٹی خبر کے نتیجے میں ہوئے۔ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا کہ بچوں کے ایک ڈانس کلب پر حملہ کرنے والا شخص مسلمان تھا۔اس افواہ کے بعد انتہا پسندوں نے درجنوں مساجد اور مسلمانوں کی املاک پر حملے کیے۔ بعد میں جب حقیقت سامنے آئی کہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا تو تب تک نقصان ہو بہت ہو چکا تھا یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جھوٹی خبر صرف غلط فہمی نہیں بلکہ فتنہ بن جاتی ہے، اور فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو سیاسی انتقام، ذاتی کردار کشی اور مذہبی منافرت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگ قائم کر رکھے ہیں جہاں باقاعدہ تنخواہ دار ٹیمیں مخالفین کے خلاف گالم گلوچ اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں سچائی دب جاتی ہے اور معاشرہ دو انتہاں میں بٹ جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق جھوٹ بولنا، تہمت لگانا یا جھوٹ کی تائید کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ مگر افسوس کہ ہم روزانہ کسی نہ کسی شکل میں اس گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ کبھی کسی ویڈیو کو بغیر تصدیق کے شیئر کر کے، کبھی کسی جھوٹی پوسٹ پر تبصرہ کر کے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ الفاظ بھی تلوار سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب وہ لاکھوں لوگوں تک پہنچیں۔سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے مگر طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اسی سوشل میڈیا کو تعلیم، تربیت، اخلاقی بیداری اور قومی اتحاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی رائے پیش کریں، مگر شرط یہ ہے کہ وہ رائے علم، تحقیق اور سچائی پر مبنی ہو۔ کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے تصدیق ضروری ہے۔ اگر کسی ویڈیو یا پوسٹ سے کسی کی عزت یا جان خطرے میں پڑ سکتی ہے تو بہتر ہے اسے روک لیا جائے۔ ایک جھوٹا جملہ کسی معاشرے میں نفرت، اور ایک درست جملہ کسی قوم میں امید پیدا کر سکتا ہے۔بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی وفاداری ہمیشہ پاکستان کے مفادات سے وابستہ رکھیں نہ کہ کسی شخصیت یا جماعت سے۔ جو بھی قوت پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرے، اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر وطنِ عزیز کا مثبت چہرہ دکھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ دنیا آج پاکستان کو انہی ڈیجیٹل اسکرینوں سے دیکھتی ہے۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ چاہے تو دنیا کو جوڑ دے اور چاہے تو تقسیم کر دے۔ یہ علم، اصلاح اور سچائی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے یا نفرت، جھوٹ اور فتنہ کا میدان بھی۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اسے حقائق کی دنیا بناتے ہیں یا فتنوں کا دور۔ پیشہ ور صحافیوں پر پابندیاں جب عائد کردی جائیں نامی گرامی ٹی وی اینکروں کے پروگرام بند ہوجائیں تو پھر معاشرے میں انارکی پھیل جاتی ہے عوام کی نبض پر ہاتھ اسی کا ہوتا ہے جس کے ساتھ عوام ہوں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے