محترم قارئین، حالیہ دور میں سوشل میڈیا انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس نے دنیا بھر میں نئی فکری، اخلاقی اور سماجی بحثوں کو جنم دیا ہے۔
یہ پلیٹ فارم انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی خوبی یا خامی اس کی ذات میں نہیں بلکہ اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ یہ اظہار خیال کا ایک طاقتور ذریعہ ہے جو رابطے اور معلومات کی ترسیل کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر اسے مثبت، تعمیری اور بامقصد طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ رحمت کا سبب بن سکتا ہے، جبکہ اگر یہ غلط معلومات، نفرت، فحاشی اور وقت کے ضیاع کا آلہ بن جائے تو یہ زحمت کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے فوائد اور نقصانات کو سمجھیں اور اسے ذمہ داری سے استعمال کریں تاکہ یہ ہماری زندگیوں کو آسان اور بہتر بنائے نہ کہ خرابی اور زحمت کا باعث بنے۔
سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد ہیں جو انسانی زندگی کو آسان اور جدید بناتے ہیں۔ انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو یہ دنیا بھر میں دوستوں اور رشتہ داروں سے فوری رابطے کا ذریعہ ہے۔ دور دراز بیٹھے لوگوں سے بات چیت، ویڈیو کالز اور پیغام رسانی کی سہولت نے فاصلے ختم کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ کاروبار، فری لانسنگ اور روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لوگ اپنی مہارتوں کو آن لائن پیش کر کے نوکریاں حاصل کر سکتے ہیں یا اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اپنی رائے، صلاحیت اور تخلیقی سوچ کے اظہار کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں افراد اپنے خیالات شیئر کر کے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ خود آگاہی اور معلومات تک آسان رسائی بھی اس کا ایک بڑا فائدہ ہے، کیونکہ لوگ مختلف موضوعات پر آرٹیکلز، ویڈیوز اور پوسٹس کے ذریعے سیکھ سکتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر یہ سماجی مسائل بارے شعور اور آگاہی پھیلاتا ہے۔ انسانی حقوق، ماحولیاتی تبدیلی یا غربت جیسے مسائل پر آگاہی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ رفاہی کاموں، امدادی مہمات اور فلاحی سرگرمیوں کی ترویج کے علاوہ مظلوم طبقات کی آواز کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں یہ اہم کردار ادا کرتا ہے،
قومی سطح پر سوشل میڈیا قومی بیانیے کے فروغ کا موثر ذریعہ بنتا ہے۔ قدرتی آفات یا ہنگامی حالات جیسے زلزلہ، سیلاب یا دہشت گردی کے واقعات میں فوری اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ نوجوانوں میں سیاسی اور سماجی شعور کی بیداری بھی اس کا ایک بڑا فائدہ ہے، کیونکہ وہ مختلف پلیٹ فارمز پر بحثوں میں حصہ لے کر اپنی رائے تشکیل دیتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں، سوشل میڈیا آن لائن لیکچرز، کورسز اور ڈیجیٹل لائبریریوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ طلبہ گھر بیٹھے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے کورسز حاصل کر سکتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کے درمیان آسان رابطہ ممکن ہے۔تحقیق، معلومات اور جدید علوم تک فوری پہنچ بھی آسان ہو گئی ہے، کیونکہ سرچ انجنز اور سماجی گروپس کے ذریعے مطلوبہ عمواد بآسانی دستیاب ہو جاتا ہے۔ دینی حوالے سے، یہ قرآن و حدیث کی تعلیم، دروس اور خطبات کی اشاعت کا ذریعہ ہے۔ لوگ آن لائن دینی کلاسز میں شرکت کرتے ہیں اور دین اسلام کا مثبت تعارف دنیا بھر میں پیش کرتے ہیں۔ دینی سوالات کے جوابات اور اصلاحی مواد دستیاب ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے، تعلیمی ویڈیوز اور سیکھنے والی ایپس دستیاب ہیں جو کھیل کھیل میں علم سکھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما کرتا ہے، جیسے کہ ڈرائنگ، پینٹنگ، اصلاحی کہانیاں یا سائنسی تجربات کی ویڈیوز عام دستیاب ہوتی ہیں۔
تاہم سوشل میڈیا کے نقصانات بھی کم نہیں جو انسانی زندگی کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ انفرادی سطح پر یہ وقت کے ضیاع اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ لوگ گھنٹوں بے معنی اسکرولنگ میں گزار دیتے ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔ لوگوں کی پرائیویسی کا خاتمہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ ذاتی معلومات شیئر کر کے لوگ خود کو خطرات میں ڈالتے ہیں۔ غیر ضروری نمود و نمائش اور مایوسی پھیلانے والی تحریروں اور وڈیوز کی وجہ سےجب لوگ دوسروں کی زندگیوں سے موازنہ کرتے ہیں تو ان میں نفسیاتی مسائل جیسے حسد، مایوسی اور ڈپریشن بھی بڑھتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر، جھوٹی خبریں یعنی فیک نیوز کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ ہے جو لوگوں کی گمراہی اور کردار کشی کا سبب بنتا ہے۔ اسی کے ذریعے معاشرے میں نفرت انگیزی اور انتشار بھی پھیلتا ہے، جو معاشرتی تقسیم کا سبب بنتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے روایتی خاندانی نظام میں کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ لوگ حقیقی تعلقات کی بجائے ورچوئل دنیا میں گم رہتے ہیں۔
قومی سطح پر یہ قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے، جیسے کہ جانے انجانے میں حساس معلومات افشا ہو جاتی ہیں۔ اس کے ذریعے دشمن قوتیں جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے فکری اور نظریاتی انتشار بھی پھیلاتی ہیں جو قومی اتحاد کو کمزور کرتا ہے۔ نوجوانوں کا منفی اثرات قبول کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔
سوشل میڈیا کے تعلیمی نقصانات بھی ہو رہے ہیں۔ طلبہ کی پڑھائی کی طرف توجہ میں کمی آتی ہے۔ نقل، غیر سنجیدگی اور سطحی علم کا رجحان بڑھتا ہے، جبکہ مطالعے کی عادت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
دینی نقصانات میں دشمن قوتوں کی طرف سے قرآن و حدیث کا غلط ترجمہ، تشریح اور غیر مستند دینی معلومات کا پھیلاؤ ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ مغربی تہذیب کا پھیلاؤ اسلامی معاشروں میں اخلاقی بگاڑ اور بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔
بچوں کے لیے غیر اخلاقی مواد تک رسائی آسان ہے جو ان کی معصوم ذہنیت کو خراب کرتی ہے۔ موبائل اور سکرین کی عادت نشے کی صورت اختیار کر جاتی ہے جو انہیں والدین اور کتابوں سے دور کر دیتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے فوائد کیسے حاصل کیے جائیں؟
ہم مندرجہ ذیل انفرادی اور اجتماعی عملی طریقوں کو اپنا کر سوشل میڈیا کو اپنے اور معاشرے کے لیے رحمت بنا سکتے ہیں۔ انفرادی سطح پر، وقت کی حد مقرر کرنا ضروری ہے۔ بامقصد اور مثبت مواد دیکھا جائے، جیسے کہ تعلیمی پوسٹس یا موٹیویشنل آڈیوز اور ویڈیوز ہیں۔ غیر ضروری بحث و تنازعہ سے پرہیز کریں۔ معاشرتی سطح پر اصلاحی، اخلاقی اور تعمیری مواد کی ترویج کی جائے۔ نفرت انگیزی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔ قومی سطح پر، قومی مفاد کو ترجیح دیں اور کسی بھی قسم کی خبروں کی تصدیق کیے بغیر آگے نہ پھیلائیں۔ ہمیشہ معتبر ذرائع سے وصول شدہ معلومات سے استفادہ کریں۔ تعلیمی میدان میں، سوشل میڈیا کو تعلیمی معاون کے طور پر استعمال کریں۔ دینی حوالے سے، مستند علما اور اداروں کی پیروی کریں۔ بچوں کی تربیت کے لیے، والدین کی نگرانی ضروری ہے۔ اسکرین ٹائم کی حد مقرر کریں۔ بچوں کے لیے تعلیمی، اخلاقی، دینی اور اصلاحی مواد کا انتخاب کریں۔
ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ سوشل میڈیا علم کا ذریعہ بھی ہے اور گمراہی کا راستہ بھی۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اسے اپنے لیے رحمت بناتے ہیں یا زحمت۔ وما علينا إلا البلاغ.
کالم
سوشل میڈیا: رحمت یا زحمت!!!
- by Daily Pakistan
- دسمبر 24, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 35 Views
- 3 دن ago

