سوشل میڈیا بھی کیا خوب ہے جو خبریں ہمارے چینل دکھانے سے قاصر ہیں وہ سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں اور پھرجس خبر کو ہمارے ارباب اختیار اپنے لوگوں سے چھپانا چاہتے ہیں وہی خبر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے ایسا ہی کچھ ماجرا آجکل ہمارے ساتھ پیش آرہا ہے عید کے دن جب بہاولنگر کے تھانہ میں ہماری پولیس کے شیر جوانوں کی درگت بنائی جارہی تھی انہیں تھانہ کی حولا ت میں خوب مارا گیا اور پھر دھوپ میں کان پکڑوا کرانکی پریکٹس بھی کروائی گئی اسکے بعد جو ویڈیو منظر عام پر آئی تو کچھ شرارتی قسم کے بچوں نے بہاولنگر پولیس کے جوانوں کے جسم پر مار پیٹ کے نشانات والی تصیوریں اپ لوڈ کی تو ساتھ میں عمر اصغر خان کی بھی ایک تصویر لوڈ کردی جس میں وہ بھی پولیس کی مار کے بعد اپنے جسم پر زخموں کے نشانات دکھا رہے ہیں جبکہ اور بھی بہت سی تصویریں نظروں سے گذری جو پولیس والوں کے تشدد سے بری طرح لہولہان تھے ان میں بچے ،بزرگ اور نوجوان تو تھے ہی ساتھ میں خواتین کے ساتھ پولیس کی بہادری کے منہ بولتے ثبوت بھی تھے ہماری پولیس نے بھی تو کسی نہ کسی کے حکم معصوم اور بے گناہ افراد پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اور ابجب خود پولیس والوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے تومزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی طرف سے مزمت کا ایک بھی لفظ نہیں آیا کیونکہ جو بھی اسکی مذمت کریگا پھر اسکی مرمت کا بھی وقت آجائیگا شائد اسی لیے بہاولنگر کے ڈی پی او نے پولیس کی ہلکی پھلکی مالش کے بعد دل کھول کر انہی کے حق میںنعرے لگائے بھی اس سارے خوبصورت کھیل کے بعد مجھے وہ سنہرے الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتے ہیں اورغریب ،مجبور ،بے سہارا اور بے یارو مدد گار لوگ مکھی کی طرح اس جالے میںپھنس جاتے ہیں سوشل میڈیا عوام کو عقل و شعور تو دے ہی رہا ہے ساتھ میں اس نے ٹی وی چینلز اور اخبارات کی اجارہ داری بھی ختم کردی جوخبر کسی چینل اور اخبار میں نہیں ملتی وہ سوشل میڈیا پر ضرور مل جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ غیر تصدیق شدہ ہوتی ہے لیکن ہمارے اندر جو پابندی کی سختیاں بھری ہوئی ہیںان میں آکرہر خبر سچی لگنا شروع ہوجاتی ہے اسی لیے تو پھر ہر خبر وائرس کی طرح پھیلتی ہے شائد اسی لیے ہماری حکومت نے سب سے بڑے پلیٹ فارم ایکس پر پابندی لگارکھی ہے اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا مظلوم کی آواز ہے جو حکام بالا تک پہنچانے کا واحد آسان اور سستا زریعہ ہے جب بہاولنگر تھانے میں لتر پریڈ ہوگئی تو اسکے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان سے برپا تھا ویسے تو ہمارے تھانوں میں مار پیٹ ،ڈنڈا ڈولی ،کان پکڑوائی ،چارپائی لگانا جیسے درجنوں کھیل ہر روز کھیلے جاتے ہیں ہماری پولیس کے شیر جوان اپنی بڑی بڑی توندوں کے ساتھ جب کسی غریب کو الف ننگا کرکے اسکے ہاتھ اور پاﺅں پر پورے وزن سے کھڑے ہوکر ڈنڈوں،چھتروں اور بوٹوں سے تواضع کرتے ہیں تواس وقت انہیں کوئی انسانیت نظر آتی ہے اور نہ ہی محسوس ہوتی ہے شائد اسی نفرت کا اظہار ہے جو لوگ سوشل میڈیا پر کررہے ہیں ویسے تو بہت سے دلچسپ اور نوک دار تبصرے بھی ہیں لیکن ابھی ابھی رمضان گذرا ہے اور یہ واقعہ بھی عید کے دن کا ہے تو اسکی مناسبت سے صرف ایک ہی تبصرہ لکھ رہا ہوں کہ شیطان نے آزاد ہوتے ہی دو قریبی بھائیوں کو لڑوا دیامگر خوبصورت بات یہ ہے کہ ہمارے اداروں نے شیطان کی ساری کارروائی پر مٹی ڈالتے ہوئے مزید لڑنے سے انکار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حق میں زندہ آباد کے نعرے بھی لگائے لیکن مار پیٹ اور بے عزتی کے اس واقعہ پر چند پولیس کے جوان دلبرداشتہ بھی ہوئے جنہوں نے اسے خوامخواہ عزت و بے عزتی کا مسئلہ بناتے ہوئے پولیس سے استعفے کا اعلان کردیا بلکہ ایک ایلیٹ فورس کے جوان نے اپنی وردی جلانے کی ویڈیو بھی شیئر کردی یہ سوشل میڈیا کا ہی کمال ہے کہ اس نے ایک عام انسان کو بھی اپنی بات عوام تک پہنچانے کی ہمت دیدی ہے ابھی ہمارے بزرگ اور بڑھتی عمر کے نوجوان سے نعمت سے محروم ہیں جس دن انہیں بھی اس چیز کی سمجھ آگئی تو پھر نہ جانے وہ اپنی یادوں کے کونوں کھدروں سے کیا کیا لے آئیں کیونکہ ہمارے بزرگ اتنے تلیم یافتہ بھی نہیں تھے اور انہوں نے حالات کی سنگینیوں کی وجہ سے اسے سیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ویسے یادوں کے جو خزانے ہمارے بزرگوں کے پاس ہیں وہ انہیں اب سوشل میڈیا پر لے آنے چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی معلوم ہوسکے کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا بعض باتیں کتابوں میں ہیں لیکن اکثر باتیںلوگوں کے سینوں میں ہی دفن ہیں انسانی زندگی میں ڈر اور خوف علم کی کمی کی وجہ سے آتا ہے شائد اسی لیے ہمیںہمارے حکمرانوں نے علم سے دور رکھنے کی کوشش کی کہ کہیں اس قوم کو بھی شعور نہ آجائے ہمیںتو آج تک اپنے بنیادی حقوق کا بھی علم نہیں ہے جو آئین پاکستان نے ہر شخص کو بلا تفریق دے رکھے ہیں اسی بنیادی حقوق میں سے تعلیم ہر فرد کے لیے مفت ہے جو ہمیں نہیں دی جارہی حالانکہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے لیکن ہمیں ہمارے ملک میں تعلیم کی آزادی نہیں یہاں ایک باپ کو ساری عمر گدھوں کی طرح کام کرکے اپنے بچوں کو پڑھانا پڑتا ہے اور پھر جب وہ ایم اے ،ایمایس اسی ،ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی خاکروب ،نائب قاصد اور کانسٹیبل کی نوکری کےلئے درخواست دیگا تو اس ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی رہی بات معاشرے کی جو بے حس ہو چکا ہے انکی بلا سے جو مرضی ہوتا رہے کسی کو ئی پرواہ نہیں لیکن کہیں نہ کہیں ایک چنگاری ضرور سلگ رہی جو ایک دن علم کی حقیقی شمع روشن کریگی جس میں ایک دوسرے کےلئے پیار،خلوص، احساس، شعور اور آگہی بھی ہوگی آخر میں ایک پیارے ،خوبصورت اور درد دل رکھنے والے انسان محی الدین وانی کی زبانی ایک قصہ کہ دو سال قبل شرپسندوں کے ایک گروپ نے چلاس میں لڑکیوں کے ایک اسکول کو آگ لگا دی جس سے مایوسی اور خواب چکنا چور ہو گئے لیکن ملبے کے درمیان امید کی ایک کرن ابھری یہ ایک چھوٹی بچی کا دل دہلا دینے والا عزم تھا جس کے غیر متزلزل جذبے نے کمیونٹی کے اندر لچک کے شعلے بھڑکائے تھے ہر روز وہ انتھک محنت سے مزدوروں اور ٹھیکیداروں کو چائے پیش کرتی تھی اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ نہ صرف کپ بلکہ مصیبت کے خلاف مزاحمت کا پیغام بھی اٹھائے ہوئے تھے ہر گھونٹ کے ساتھ وہ ایک بحال شدہ اسکول کے اپنے خوابوں کو سرگوشی کرتی اس کی آنکھیں اٹل یقین کے ساتھ چمک رہی تھیں اس کی لگن نے دلوں کو ہلایادیا! صرف چند دنوں میں ایک زمانے کی ویران زمینیں تعمیر نو کی آوازوں سے گونج اٹھیں یہ ایک جذبہ تھا علم کی روشنی پھیلانے کاکہ وحشت اور دہشت زدہ ماحول کے باوجود اس تباہ حال سکول کی تعمیر کے بعد صرف پانچ دنوں میں اسکول میں بچوں کا اندراج پہلے سے دوگنا ہوگیا بلاشبہ یہ روشنی ان لوگوں کے دلوں میں اس وقت پہنچی جب محی الدین وانی چیف سیکرٹری گلگت بلتستان تھے اور انکی کوشش بھی یہی تھی جو اب انہوں نے اسلام آباد میں شروع کررکھی ہے ایسے ہی لوگوں کی پاکستان کو ضرورت ہے جو اپنے شعور کی وجہ سے حالات تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔