کالم

”سونے“کی تلاش اور جاگنے کا امکان

جن عزیزوں کو 10 مئی 1969 کو امریکہ میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ کی معروف فلم مکیناز گولڈ کے بیک گروانڈ میوزک کی تھرتھراتی اور گونجتی آواز یاد ہے ،یا کچھ کچھ اندازہ ہے ،وہ آج کل یہی آواز ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور کے اس کمیٹی روم میں سن سکتے ہیں ،جہاں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مدارالمہام سرچ کمیٹیوں کے سدھائے ہوئے گھوڑوں پر سوار ہو کر سونے کی تلاش کے عوض، زیادہ منافع بخش دھات یعنی وائس چانسلروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ ستم ظریف اس عمل کو ایک دیگر مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پنجاب میں وائس چانسلرز کےلئے ترسی ہوئی نئی پرانی یونیورسٹیوں کےلئے نئے وائس چانسلروں کے انتخاب کا عمل اس طور جاری ہے کہ ؛ اس انتخاب کےلئے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور سرچ یعنی خرچ کمیٹیوں کی تگ و تاز کو دیکھ کر عید قربان سے پہلے بکرا منڈی کے مناظر ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں ،جہاں بکرے خریدنے والے ماہرین ہر بکرے کا منہ زبردستی کھول کر اس کے دانت شمار کرنے ، کمر پر اکڑے ہوئے ہاتھ سے پٹھ کے گوشت کا اندازہ لگانے اور بعض اوقات بکرے کو گود میں اٹھا کر اس کے وزن کا اندازہ قائم کرنے کی کوشش کرتے نظر آ جاتے ہیں۔خیر یہ بکرے تو ثواب کی نیت سے قربان کرنے کےلئے خریدے جاتے ہیں ،لیکن پنجاب کی مستقل وائس چانسلروں کےلئے ترسی ہوئی یونیورسٹیوں کےلئے انتخاب کی وجہ کسی ثواب کا حصول نہیں ،بلکہ آزمودہ اور تجربے کار وائس چانسلروں کی معرفت سے پنجاب میں ہائر ایجوکیشن کے نام پر مختص بھاری فنڈز کی منصفانہ تقسیم اور بوساطت مجاز ترسیل ہے ۔ پنجاب میں وائس چانسلرز کی تعیناتی ممکن حد تک نااہل ، مال پسند ، رشوت خواں، اور تماشا گیر گروہ کے ہاتھ میں ہے۔پنجاب کی یونیورسٹیوں کو ادھیڑ کر رکھ دیاگیا ہے۔اب یونیورسٹیاں صرف کرپشن کرنے اور حصہ پتی طے شدہ تناسب سے تقسیم کرنے کا وسیلہ بن کر رہ گئی ہیں۔آنےوالے سالوں میں یونیورسٹیوں کے پاس اپنے ملازمین اور اساتذہ کو تنخواہیں اور پینشن دینے کےلئے رقم دستیاب نہیں ہو گی۔پنجاب میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسکی ایک بڑی مثال ہے ۔ یونیورسٹیوں میں خطرناک حد تک کم ہوتے داخلے ، نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم سے عدم دلچسپی کی طرف نہیں ،بلکہ پیش کی جانے والی اعلیٰ تعلیم کے معیار پر عدم اعتماد کا کھلا اظہار ہے۔ایک وجہ یونیورسٹیوں کی بہت زیادہ فیسیں بھی ہیں۔حکومت کی طرف سے جو مالی اعانت اور فنڈر ہزار طرح کی چھلنیوں سے گزر کر یونیورسٹیوں کے پاس آتی بھی ہیں تو سامنے وائس چانسلر اپنی منتخب روزگار ٹیم کےساتھ دستانے پہن پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو احسن طریقے سے کھاتے ہیں تو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق آگے بھی پہنچاتے ہیں۔ بس اب ایسے ہی آزمودہ نفوس کی تلاش جاری ہے۔ دراصل سرچ کمیٹی(جس کو بعض دانائے راز لوگ خرچ کمیٹی بھی کہتے ہیں)کا آئیڈیا ہی پرائیویٹ یونیورسٹی مافیاکا بنایا ہوا ناٹک ہے ،جس پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی مدد اور تعاون سے کھیل کھیلا جاتا ہے۔یہ سرچ کمیٹیاں عمومی طور پر ایسے امیدواروں کو ترجیح دیتی ہیں جو؛ سرکاری اسکالرشپ پر بیرون ملک سے پی ایچ ڈی مکمل کر چکے ہوں ۔مگر انہیں ان کی قابلیت ، لیاقت اور اہلیت کی وجہ سے کسی ملک نے اپنے ہاں رکنے اور کام کرنے کی اجازت نہ دی ہو۔ جن کی پڑھی اور پڑھائی ہوئی سائنس دنیا کو کبھی سمجھ میں نہ آئی ہو۔ جو غیر ملکی تعلیم یافتہ نظر آنے کےلئے مئی جون جولائی میں بھی وولن سوٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر رکھتے ہوں۔ جو یونیورسٹی کو جاری ہونے والے فنڈز کو بطریق احسن استعمال کرنے اور تقسیم کرنے کی مہارت اور سفارش رکھتے ہوں۔ کچھ شرائط دیگر بھی ہیں لیکن ان کا ذکر سرعام مناسب نہیں۔ جو نفوس قدسیہ اس حمام میں تولیہ باندھے موجود ہیں ،وہ سارے قصے جانتے اور ساری رسموں سے واقف ہیں ۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے نئے وائس چانسلروں کے انتخاب کی ایک لازمی شرط ان کی پوسٹنگ سے پہلے ان کے، ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر کل اثاثوں کی مصدقہ دستاویز اور اس دستاویز کے سچ ہونے کے تحریری حلف نامے کا حصول ہونی چاہئے تاکہ وائس چانسلری کا ٹینیور مکمل کرنے کے بعد ان کے اثاثوں میں ہونےوالے اضافے کو غور و فکر کا عنوان بنایاجاسکے۔ہمارے ہاں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے وائس چانسلر رئیل اسٹیٹ کے ڈان بنے ہوتے ہیں ، ایک صاحب پلاٹوں کےساتھ سونے کی ننھی ننھی اینٹوں کے شوقین تھے۔ایسوں کے ماتحت ساتھی بھی اپنے ہاتھ دھونے کےلئے اپنی الگ اور متوازی گنگا بنا لیتے ہیں۔ جو بات ساری خرابی کا محور ہے وہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے لامحدود اختیارات ،اور زیردست سنڈیکیٹ یا ایگزیکٹو کونسل ہے۔اگرچہ حکومت کی طرف سے سنڈیکیٹ میں زندگی کے مختلف شعبوں کے لوگ بشمول ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی شامل ہوتے ہیں ، لیکن یہ سارے وائس چانسلر کی آنکھوں میں اپنی پسند کے اشارے تلاش کر کے ان کا اجر وصول کر لیتے ہیں۔اگرچہ یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹس میں دیگر کے علاہ ہائیکورٹ(وفاقی یونیورسٹیوں میں سپریم کورٹ)کے حاضر سروس جج بھی رکن بنائے جاتے ہیں،لیکن یہ ججز بھی یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹس کے اجلاس میں شرکت کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے ۔ان ججز کی سنڈیکیٹ کی میٹنگز میں شمولیت کو لازمی قرار دیا جانا چاہیئے۔نیز چیف جسٹس صاحب کو ہر اجلاس کے بعد سنڈیکیٹ کے رکن جج صاحب سے ایک تحریری رپورٹ لینی چاہیئے کہ؛یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں یونیورسٹی ایکٹ اور ملکی قانون کے خلاف یا متصادم کوئی فیصلہ تو نہیں کیا گیا ۔اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ججز کی شمولیت چند ذاتی فوائد و مراعات تک محدود ہو جائے گی۔یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر دراصل اس ادارے کا وائسرائے ہوتا ہے ۔اسکے پاس سنڈیکیٹ کے مختلف اراکین کو اپنے فیصلوں کا ہمنوا بنانے کےلئے سو طریقے اور دو سو سلیقے موجود ہوتے ہیں۔ صرف یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹس ہی درست اور مبنی برانصاف فیصلے کرنے لگیں تو یونیورسٹیوں کے مالی اور انتظامی حالات اتنے برے نہ ہوں۔ یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹس کو راہ راست پر رکھنے کی بڑی ذمہ داری یونیورسٹی اساتذہ پر بھی عاید ہوتی ہے ۔اس کےلئے یونیورسٹیوں کی فیکلٹی کو زندہ ، باشعور، اپنے حقوق و فرائض سے آشنا اور بے خوف ہونا چاہیئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عموما ایسا نہیں ہو پاتا۔حالانکہ سنڈیکیٹ میں یونیورسٹی فکیلٹی کے چار منتخب نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں۔جبکہ یونیورسٹی ایڈمنسریشن کا کوئی نمائیندہ سنڈیکیٹ کا رکن نہیں ہوتا۔رجسٹرار صرف سیکرٹری کا کام کرتا ہے ،( ضرورت پڑنے پرووٹ نہیں دے سکتا)لیکن کس قدر شرمندگی کی بات ہے کہ کسی یونیورسٹی کی کسی سنڈیکیٹ میں ایڈمنسٹریشن کے مفاد کا کوئی ایجنڈا آئٹم مسترد یا موخر نہیں ہوا ۔جبکہ ٹیچرز ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ میٹنگ میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا ۔جو فکیلٹی ممبرز سنڈیکیٹ کے اراکین ہوتے ہیں،ان میں کم ہی پھر انسان رہتے ہیں۔اکثریت ایڈمنسٹریشن کی تلوہ چاٹ فورس کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ ساری افسوسناک صورتحال محض تنقید اور اعتراض کرنے سے تبدیل نہیں ہو گی۔اس کےلئے اساتذہ، طالب علموں ، والدین اور معاشرے کے ہر فرد کو جاگنا اور متحرک ہونا پڑے گا۔ ہم اعلی تعلیم کے میدان میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ، وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے لوگ سوال نہیں کرتے، ہمارے یونیورسٹی اساتذہ ایک خوف کے زیر سایہ ڈرے ڈرے اور خاموش رہتے ہیں، طالب علم مایوس ہو چکے ہیں ، والدین صورت حال سے پریشان ہیں۔ اس منظر کو تبدیل کرنے کےلئے سبھوں کو جاگنا ہوگا، بیدار ہونا ہو گا۔سونے کی عادت اور تلاش بہت ہو چکی، اب حقیقت کی دنیا میں واپس قدم رکھتے ہوئے غفلت ، محرومی میں خوش رہنے کی عادت کو بدلنے اور نیند سے پیچھا چھڑا کر جاگنے کا آغاز کرنا چاہیئے۔ورنہ وہی صورت بن سکتی ہے ،جس کی طرف میر تقی میر بہت پہلے اشارہ کر چکے ہیں ؛یعنی
جاگنا تھا ہم کو سو بیدار ہوتے رہ گئے
کارواں جاتا رہا ہم ہائے سوتے رہ گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے