دسمبر 1979 کا مہینہ تھا، جب سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی اور ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جسے بعد میں ”جہادِ افغانستان” کا نام دیا گیا۔ بظاہر یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس خونی کھیل کے پس پردہ عالمی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات کارفرما تھے۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ سوویت یونین نے افغانستان پر”قبضہ”کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سویت افواج افغان حکومت کی دعوت پر آئیں۔ اس وقت افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDPA) برسراقتدار تھی، جو اندرونی بغاوت، قبائلی مخالفت اور اسلامی تحریکوں سے نبرد آزما تھی۔ صدر نور محمد ترکئی اور بعد ازاں حفیظ اللہ امین نے روس سے عسکری مدد مانگی، اور پھر ببرک کارمل کی قیادت میں نئی حکومت قائم ہوئی، جس کی پشت پناہی سوویت یونین نے کی۔ سویت یونین کا مقصد نہ صرف اپنی جنوبی سرحدوں کا تحفظ تھا، بلکہ امریکی اثرورسوخ کو وسط ایشیا تک پھیلنے سے روکنا بھی اس کی ترجیحات میں شامل تھا۔دوسری جانب امریکہ نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ سی آئی اے نے سعودی عرب، مصر اور پاکستان کے ساتھ مل کر آپریشن سائیکلون کے تحت ”مجاہدین” کی تیاری کا بیڑا اٹھایا۔ پاکستان کی آئی ایس آئی نے اس جنگ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے افغان جنگ کو ”اسلام کی بقا کی جنگ” بنا کر پیش کیا۔ گل بدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، جلال الدین حقانی، اور برہان الدین ربانی جیسے نام مجاہدین کے نمائندہ چہروں کے طور پر ابھرے۔افغان حکومت اس پورے عرصے میں کمزور، تقسیم شدہ اور روس کی محتاج رہی۔ مجاہدین گروہوں کو ایک طرف امریکہ سے جدید اسلحہ، خفیہ تربیت اور ڈالرز ملے، تو دوسری طرف مذہبی لٹریچر اور جذباتی نعروں نے عوام کو اندھا کر دیا۔ اسلامی دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ کابل میں بیٹھا ہر شخص کافر ہے، اور روس کا ہر سپاہی واجب القتل۔اس دوران چین نے بھی خاموشی سے کچھ ہتھیار اور سہولیات پاکستان کے ذریعے فراہم کیں، مگر کھل کر میدان میں نہیں اترا۔اس جنگ کا نتیجہ؟ افغانستان کھنڈر بن گیا، لاکھوں افراد شہید یا زخمی ہوئے، لاکھوں خاندانوں نے ہجرت کی، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں، اور پورے معاشرے کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ اندازوں کے مطابق اس جنگ میں 15 سے 20 لاکھ افراد مارے گئے، 20 لاکھ سے زائد زخمی یا اپاہج ہوئے، اور 50 لاکھ سے زائد افراد کو ہجرت کرنا پڑی۔ لاکھوں بچے تعلیم اور مستقبل سے محروم ہوئے، جب کہ خواتین پر جنگی حالات کا بدترین اثر پڑا۔پاکستان بھی اس جنگ سے محفوظ نہ رہا۔ پشاور، کوئٹہ، اور دیگر سرحدی علاقے افغان مہاجرین سے بھر گئے، جنہوں نے اپنی بقا کے لیے ہر طرح کا کام کیا۔ اسی دور میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر نے جنم لیا، مدارس میں جہادی نظریات نے جڑ پکڑی، اور ریاستی اداروں نے ان گروہوں کو پالا پوسا۔ جب جنگ ختم ہوئی، تو وہی مجاہدین طالبان بن گئے، کچھ دہشت گرد ٹھہرے، کچھ سیاستدان، اور کچھ ”دہشت گردی” کے خلاف جنگ میں دشمن۔ آج کے طالبان اور اُس وقت کے مجاہدین میں کئی بنیادی فرق ہیں۔ مجاہدین عالمی طاقتوں کے لاڈلے تھے؛ انہیں مالی امداد، سفارتی تحفظ اور عالمی حمایت حاصل تھی۔ آج کے طالبان عالمی اسٹیج پر تنہا ہیں، انہیں نہ وہ مالی پشت پناہی حاصل ہے، نہ اخلاقی جواز۔ ماضی کے مجاہدین نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر جنگ لڑی، جبکہ آج کے طالبان اپنی ریاستی بقا اور داخلی اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں — جس کے خدوخال الگ ہیں، مگر پس منظر وہی پرانا ہے: عالمی بساط پر افغانستان کو قربانی کا بکرا بنانا۔اس جنگ نے پاکستان میں نہ صرف عسکریت پسندی کو فروغ دیا بلکہ ریاست اور سماج کو ایک ایسے انتشار کی جانب دھکیل دیا جس سے نکلنا آج تک ممکن نہ ہو سکا۔ یہ جنگ نہ صرف افغانوں بلکہ پاکستانیوں کے لیے بھی ایک اجتماعی سانحہ تھی، جس کی قیمت آج تک چکائی جا رہی ہے۔تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب جنگیں مقدس عنوان کے نام پر لڑی جائیں اور اصل مقاصد چھپے ہوں، تو ان کا نتیجہ صرف بربادی ہوتا ہے۔ جہاد کا تقدس اپنی جگہ، مگر کسی قوم کے مستقبل کو عالمی شطرنج کی بساط پر قربان کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور آنے والی نسلوں کو بندوق نہیں، قلم اور کتاب کا وارث بنائیں۔