کالم

سوکھی روٹی ہے کھانے کو کچھ ہے ،پیسے دے دو

روزانہ پیارے سے بچے ہاتھ میں تھیلا اٹھائے گھر کی بیل بجاتے ہیں اور جب کوئی گھر کا فرد دروازے پہ جاتا ہے کہ کون مہمان ہے تو وہ بچہ جس کی عمر سات سال سے پندرہ سولہ سال کے درمیان ہوتی ہے کہے گا سوکھی روٹی ہے ؟ انکار کی صورت میں وہ دوسرا جملہ کہے گا کھانے کو کچھ ہے ؟ اگرآپ نے نفی میں جواب دیا تو وہ فورا کہے گا پیسے دے دیں ۔ دن میں متعدد بچے آتے ہیں جن کا پیشہ مانگنا بن چکا ہے ان بچوں کو ان ڈگر پر چلانے والا ہے یقینا کوئی گروہ ہوگاان بچوں کی عمریں تو سکول جانے کی ہیں لیکن انہیں بھکاری بننے کی تربیت کے بعد میدان عمل میں چھوڑ دیا گیا ہے ان کا کیا مستقبل ہے نہ تعلیم نہ ہی کوئی فنی تربیت بس صبح گھر سے نکل کر یہ بچے مانگنے اور مانگ کر کھانے میں مصروف ہیں پھولوں کی طرح کے یہ بچے مستقبل کے بھکاری بن رہے ہیں بعض بچے غلط صحبت کی وجہ سے بڑے ہوکر جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں اور تمام زندگی جرائم کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں سہتے ہوئے گزار دیتے ہیں ملک میں اس وقت بچوں کی ایک بڑی تعداد سکول نہیں جا رہی تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے باوجود رزلٹ تسلی بخش نہیں غریب والدین اپنے بچوں کو محنت مزدوری کی طرف راغب کرتے ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو اپنے بچو ں کو فنی تربیت کی غرض سے پیشہ ور افراد کی شاگردی میں سونپ دیتے ہیں ۔ معاشرے میںان پڑھ افراد کی تعداد میں اضافہ ہونا حیران کن نہیں غیر ممالک میں بچوں کو سکول بھیجنا والدین کی قانونی ذمہ داری ہے کنڈرگارٹن سے بچوں کو دانت صاف کرنے سے لیکر ٹریفک کے قوانین اور معاشرتی امور کے بارے میں تربیت دی جاتی ہے تہذیب اخلاق قانون پرعمل درآمد جان مال عزت کا تحفظ ہر شہری کا فرض ہے حکومت اپنے فرائض پورے کرتی ہے لیکن کسی بچے کو میٹرک تک تعلیم دیے بغیر نہیں رہنے دیتے میٹرک کے بعد جو بچہ تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتا اسکے شوق اور دلچسپی کے فنی شعبے میں تین سال کی ٹریننگ دی جاتی ہے اس تربیت کے تین سال بعد جو سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہےاسکے بعداس شعبے میں کام کرنے کا مجاز ہوتا ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد تعلیم یافتہ ہوتا ہے میں ایک عرصہ ملک سے باہر یورپ میں مقیم رہا اپنے قیام کے دوران میں نےایک بھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا کہ لوگ آپس میں سڑک پر لڑ رہے ہوں ایک دوسر ے کو گالیا ں دی جا رہی ہو ں شور شرابہ لوگوں کو بے مقصد جمع کرنے کا ذریعہ ہے اگر غیر شعوری طورپر اتفاق سےکسی دوسرے فرد کا آپ کو بازو یا ہاتھ ٹچ کر جائے تو وہ متعدد بار سوری کہے گا اور معذرت خواہ ہوگاگلے نہیں پڑیگا جس طرح ہمارے ہاں مناظر ہوتے ہیں ان ممالک میں کالج یونیورسٹی میں وہی بچے داخل ہوتے ہیں جن کو تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی ہو اور تعلیمی معیار بھی برقرار ہو ورنہ میڑک کے بعد فنی تعلیم کے دروازے کھلے ہوتے ہیں وہ لوگ اعلی تعلیم یافتہ افراد کو کنڈرگارٹن میں بحیثیت استاد تعینات کرتے ہیں اور وہ اساتذہ قوم کے بچوں کو ذمے دار شہری بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتےہم کہنے کو تو قوم ہیں لیکن حقیقت میں ایک جم غفیر ہیں جو انفرادی طور پر صرف اپنے اپنے مفاد کے لیے مصروف ہے قوم کا تصور اور مقام ثانوی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے ساتھ وفاداری کے بجائے دھوکے اور فریب سے احتزاز نہیں کیا جاتا ہر شخص جیسے تیسے ملک سے باہر جا کر نہ صرف کمانا بلکہ مستقبل میں رہنے کی خواہش بھی پالتا رہتا ہے ہماری بدقسمتی ہے کہ نظام تعلیم مختلف حصوں میں بنٹا ہوا ہےسرکاری سکولوں کا معیار وہ نہیں جو ہونا چاہیےکئی سکولو ں میں فرنیچر تک نہیں ہوتا بچے زمین پر یا چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں دینی مدارس کا معیار اور تربیت مختلف انداز کی ہے انگریزی سکولوں میں پڑھنے والے بچے کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے زندگی کی تمام سہولیات پیدائش سے ہی حاصل کر لیتے ہیں ان کے انداز ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے بچے جیسے نہیں ہو سکتے ہم نے آج تک نظام تعلیم میں یکسانیت پیدا نہیں کی بامقصد تعلیم کا خواب بھی ادھورا ہی ہے بچوں کی تربیت آجکل نہ گھروں میں اچھے انداز میں ہو رہی ہے نہ ہی تعلیم کے مراکز میں اس کا احساس ہے چین نے ہم سے ایک سال بعد آزادی حاصل کی اس ملک کی سیاسی اور معاشی حالت کا یہ حال ہے کہ سات دہائیوں میں دنیا میں اپنا مقام بنا لیا اس کے برعکس پاکستان کے پاسپورٹ کی جو ویلیو ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں آج ہم اپنے دوست ملک چین سے بھی قرض لے کر کا م چلا رہے ہیں ہمارے سیاسی لیڈروں کو اللہ تعالی ہدایت سے نوازے تاکہ وہ ذاتی مفادات سے آزاد ہو کر قومی مفادات کے بارے میں نہ صرف سوچیں بلکہ حکومتی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد اعلی پالیسیوں کے ذریعے ملک ، قوم کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا سرمایہ ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس سرمائے کو محفوظ کرنے کے لئے اعلی پالیسیاں نہیں توجہ بھی نہیں تعلیم کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے کر عام نہیں کیا سکتا پرائیویٹ ہاتھوں میں تعلیم دولت کمانے کا ذریعہ بن چکی ہے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر تعلیم حکومتی سرپرستی میں ہو اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کنڈر گارٹن سے لیکر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے اداروں میں موجود ہوں بچوں کو ایک ذمے دار قانون پر عمل کرنے والا ملک کا وفادار شہری بنایا جائے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کے لئے بھی تربیت گاہیں موجود ہوں گلی محلے اور بازاروں میں مانگنے والوں کو سختی سے روکا جائے انہیں ان کی دلچسپی کی مطابقت میں روزی کمانے کا باعزت پیشہ اختیار کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں یہ سب کچھ پاکستان بننے کے چند سالوں بعد ہو جانا چاہیے تھا لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد مفاد پرستوں کی ریشہ دوائیوں کی وجہ سے ملک میں نہ صرف سیاسی انتشار رہا بلکہ معاشی طور پر ٹیک آ ف کرنے میں بھی رکاوٹوں کا سلسلہ چلتا ہی رہا یہی وجہ ہے کہ آج یہ ملک ان بھکاری بچوں کی طرح بن چکا ہے جنکا ذکر پہلے کیا گیا ہم مالی اداروں کے علاوہ مختلف ممالک سے قرض لینے کے لیئے ان کے سربراہان کی خوشامدیں کرتے ہیں قرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اسے اتارنے کے قابل نہیںسیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے ادارو ں نے بھی ملک کو سیاسی اور معاشی نقصان پہنچایا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ڈالر اور روپیہ برابر کی سطح پر تھے لیکن اب ایک ڈالر پونے تین سو روپے کے قریب ہے ۔ معیشت ڈانواں ڈول ہے کس نے کی مٹھی بھر لوگ اس ملک کی رگوں سے بلاوں کی طرح خون نچوڑ رہے ہیں کوئی بھی پکڑائی نہیں دیتا سبھی وفادار سبھی پاسدار کون کس کو پوچھے سبھی ایماندار۔ ملک کسی اور شعبے میں خود کفیل ہو نہ ہو قیادتوں اور لیڈروں میں خود کفیل ضرور ہے یہی اس کی بدقسمتی ہے قیادتوں کی کثرت اور قیادت کی عدم موجودگی کی واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے میرے ذہن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ابھر آیا پیغمبری کا سفر کنویں میں گرنے سے شروع ہوا اسکے بعد انہیں کتنی بلندی اور عظمت ملی ہے وہ کچھ نہ ہونے سے ہونے کا سفر طے کروا دیتا ہے میرے ملک کی اس افسوسناک حالت کو بھی وہ مالک ضرور عروج عطا فرمائے گا نہ صرف اس کی معیشت بلکہ اس کا مقام ہوگا اس دھرتی پر سرکارﷺ کا نظر کرم ہے جلد بہتر وقت آئے گا اس کو لوٹنے اور بھیڑیوں کی طرح نوچنے والے کا ضمیر کبھی تو جاگے گا دیر ضرور ہے اندھیر نہیں ان شقی القلب لوگوں کے دلوں پر بے حسی کی جو مہر ثبت ہے کبھی تو ٹوٹے گی پاکستان بے پناہ معدنی دولت کی وجہ سے سمندر کی مانند ہے اپنی بساط کے مطابق اسے لوٹنے والے کتنا لوٹ لیں گے سب کچھ یہیں اسی ملک کی حدود میں رہ جائے گا اور وہ جو اپنے آخری غسل کے لیے دوسروں کے محتاج ہیں کندھوں پر سوار ہو کر کھڈے کو سونپ دیے جائیں گے پھر نہ ٹمٹماتی ہوئی روشنی ہوگی اور نہ ہی لیٹنے کے لیے پلنگ زمین اور حشرات الارض خوش آمدید کہیں گے نہ دولت کام آئے گی اور نہ ہی خونی رشتے ۔ مالکِ کل کی گرفت ہوگی اور اعمال کی تفصیل آنکھ وقت سے پہلے نہ کھلے تو روشن آنکھ بھی اندھی ہے حباب کی طرح ابھرتے ڈوبتے چہرے کسی کو یاد بھی نہیں رہتے صرف ان کے اعمال ذہنوں میں محفوظ رہتے ہیں پھر اچھے اور برے الفاظ یادوں کا ذریعہ بنتے ہیں کشتی ڈول رہی ہو تو اللہ سے اس کی رحمت کے لیے طلبگار ہونا پڑتا ہے شاید اب وہ وقت ہے اللہ سے ملک کی ترقی خوشحالی کے ساتھ مخلص لیڈر کی دعا ضرور مانگیں اللہ دعاوں ہو قبول کرنے والا ہے ۔ وہی ذات ان مفاد پرستوں اور دولت کے بچاریوں سے دائمی نجات عطا فرما سکتی ہے ملکی حالات ان شااللہ ہر طرح سے بہتر ہوں گے اور ملک ترقی اور خوشحالی کی منازل آسانی سے طے کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے