کالم

سپریم کورٹ فیصلہ الیکشن 14 مئی

جب سے عمران خان کے کہنے پر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے وزراے اعلیٰ نے اسمبلیاں توڑی ہیں اس وقت سے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آ رہا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن نے پنجاب کے انتخابات ملتوی کر کے نئی تاریخ آٹھ اکتوبر مقرر کر دی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سیکورٹی خدشات، فنڈز اور عملے کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتخابات ممکن نہیںپی ٹی آئی پھر سپریم کورٹ چلی گئی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو یکے بعد دیگرے دو ججوں نے کیس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ تین ججز پر مشتمل بنچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ سماعت سے قبل اٹارنی جنرل ،پاکستان بار کونسل ،چاروں صوبائی بار کونسلوں اورسابقہ وزیراعظم نواز شریف نے فل کورٹ بنانے کی درخواست کی لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے فل کورٹ کی استدعا مسترد کر دی اور تین رکنی ججوں پر مشتمل بینچ نے سماعت جاری رکھی اور محفوظ فیصلہ سناتے ہوے الیکشن کمیشن کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن 14مئی کو کرا نے کا حکم دیا ۔ عدلت نے حکومت کوایک ہفتے کے اندر فنڈز جاری کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔ حکومت کی طرف سے اس فیصلے پر مختلف انداز میں تنقید ہو رہی ہے ۔ چونکہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں جاتا ہے اس لیے پی ٹی آئی کی طرف سے خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے فیصلے پر بھرپور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ حالات توہین عدالت کی طرف جارہے ہیں دونوں فریقوں کو بڑا سنبھل کر چلنا ہو گا 1977میں جب بھٹو کیخلاف نو ستاروں کی طرف سے انتخابی دھاندلی کی تحریک چلی ۔ طویل مذاکرات ہوئے کچھ نقاط پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا پھر کیا ہوا اس کی تفصیل مذاکراتی ٹیم کے رکن مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ” اور لائن کٹ گئی” میں وضاحت سے بیان کی ہے۔ ملک سے جمہوریت چلی گئی اور گیارہ سال تک ضیاءآمریت قائم رہی ۔ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک ترمیمی بل پاس کروایا جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس کیس کا اختیار اب دو سینئر ججوں کی کمیٹی کو دے دیا ہے اس بل کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو جائے گا۔ ترمیمی بل پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد صدر پاکستان کے پاس بھیج دیا ہے ۔ صدر نے ابھی تک دستخط نہیں کیے ایک نجی ٹی وی اینکر نے جب صدر سے پوچھا کہ آپ بل پر دستخط کر دیں گے۔ صدر نے کہا بل آئے گا تو دیکھوں گا۔ صدر کی منظوری کے بعد وہ ایکٹ کی شکل اختیار کر جائے گا۔ ملک بھر کے ماہرین قانون پاکستان بار کونسل نے اس آئینی ترمیم کا خیر مقدمہ کیاہے لیکن سب کو اس کی ٹائمنگ پر اعتراض ہے۔عمران خان نے لاہور کے مینار پاکستان گراﺅنڈ میں بڑا کامیاب جلسہ کیا لاہور کے جلسے میں عوام کی اچھی خاصی تعداد جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے یہ متاثر کن اور کامیاب جلسہ تھا عمران خان نے بڑے بھرپور انداز میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے وکیل عدالت میں ورکرز کے پر امن رہنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں لیکن عمران خان حکومت پر دباﺅبڑھانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ورکرز سے آئین کے تحفظ کے لئے باہر نکلنے کی بات کرتے ہیں ۔ جب سے مریم نواز پارٹی کی سینئر نائب صدر بنی ہیں وہ بہت زیادہ متحرک نظر آ رہی ہیں وہ پنجاب بھر کے دورے کر رہی ہیں ان کے جلسوں میں لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے کارکن بھی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ ملک کی معاشی حالت وقت گزرنے کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے مہنگائی بلند ترین سطح تک جا پہنچی ہے آئی ایم ایف کی ٹیم نویں جائزے کےلئے پاکستان آئی لیکن معاہدے کے بغیر واپس چلی گئی واشنگٹن سے فنڈ کے نمائندے نے ایک بیان میں کہا کہ اسٹاف لیول معاہدہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور چین سے قرضے کی یقین دہانی کے بعد کیا جائے گا۔ پاکستان نے مالیاتی فنڈ کی تمام شرائط پوری کر دیں ہیں جس سے ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا مگر آئی ایم ایف بلیک میلنگ پر اتر آیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک کو امریکہ برطانیہ اور کینیڈا سے فنڈنگ ہوتی ہے ۔یہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرتے ہیں اور اپنے مطابات منوانے پر مجبور کرتے ہیں وہ قرضے کو غریب ممالک کےلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انگریز تو برصغر پر حکمرانی کے بعد چلا گیا لیکن اب بھی نیو کالونلزم کی شکل میں موجودہے۔ رمضان سے پہلے شادیوں کا سیزن چلتا رہا ۔ پہلے منڈی بہاﺅالدین کی دو شادیوں میں شرکت کی۔ صوفی وحید کے بیٹوں کی شادی میں شرکت کےلئے نوشہرہ ورکاں جانا ہوا وہاں سے بارات کے ساتھ بیگم اور بیٹے زید امیر کے ساتھ فیصل آباد گئے بیٹی ا ور داماد عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی حاجی ناصر اور وقار کے ساتھ بھی عرصے بعد ملے۔ ان شادیوں میں کہیں بھی ون ڈش نظر نہ آئی۔ مہمانوں کی تواضع چار چار ڈشوں سے کی گئی جو مقامی انتظامیہ کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ سیاست دان مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کرتے اب اعلیٰ عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے اس پر عملدرآمد ہی وقت کا تقاضا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے