اداریہ کالم

سپریم کورٹ میں اہم کیس کی سماعت

عدلیہ میں مداخلت کے ایشو پر ان دنوں ایک کیس کی سماعت جاری ہے،یہ ایشو اس وقت سامنے آیا جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں حکومت اور اداروں کی مبینہ مداخلت کے معاملہ پر سپریم کورٹ سے ججز نے رجوع کیا۔تیس اپریل کو ہونے والی سماعت میں ججز نے سنجیدہ ریمارکس دیئے،جن سے واضح ہوتا ہے کی سپریم کورٹ اس معاملے کو نہایت باریک بینی سے دیکھ رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کی آزادی یقینی بنائیں گے،ہم کنڈکٹ سے دکھائیںگے کہ مداخلت ہے یا نہیں،مداخلت اندرونی، بیرونی بھی ہوسکتی ہے، اپنے کام میں دخل اندازی نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔عدلیہ کو طے کر لینا چاہئے کہ کسی سیاسی طاقت، حکومت یا ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے۔انہوںنے کہاکہ ہمیں عدلیہ کے اندر بھی احتساب کی بات کرنی چاہیے،مداخلت کسی بھی قسم کی ہو؟اسکا تدارک ہونا چاہیے، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، میں نے بطور چیف جسٹس عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن کہا تھا کہ میں عدالتی معاملات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کروں گا؟ میں نے جب سے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا ہے اس دن سے لیکر آج تک عدلیہ میں مداخلت کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ہے ، اس معاملہ میں سیاست نہیں ہونی چاہیے کہ فلاں وقت تک آنکھیں بند رکھیں اور فلاں وقت تک آنکھیں کھول دیں؟ یہ تو Selective احتساب ہوا، انہوں نے کہا کہ جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے اور جے آئی ٹی بناتے ہیں تو ہم عدلیہ کی آزادی کوکم کرتے ہیں، سلیکٹیوو احتساب بدترین احتساب ہوتا ہے، ماضی میں جو ہوا سو ہوا؟ اب سچ بولیں، اگر ہمیں صرف الزام لگانے ہیں تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔یہ نہایت اہم ریمارکس تھے جو چیف جسٹس نے دیئے ،یہ ان کے عزم کاا ظہار ہے۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس ادارے مداخلت کرتے ہیں تو اسکے ذمہ دار وزیر اعظم اور انکی کابینہ ہے، مداخلت کلچر ختم ہونا چاہئے، جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے کہا آئندہ سماعت پر عدالت کو بتایا جائے کہ آئی ایس آئی ،ایم آئی اور آئی بی کس قانون کے تحت بنائے گئے ہیں،جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر کوئی جج جرات دکھائے تو اس کیخلاف ریفرنس آجاتا ہے، مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔ دوران سماعت ملک بھر کی پانچوں ہائی کورٹس نے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور ایسی ناپسندیدہ صورتحال کے تدارک کیلئے اپنی اپنی تجاویز جمع کروادی ہیں، ان تجاویز کا کھلی عدالت میںجائزہ لینے کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وفاقی حکومت سے الزامات پر جواب اور اسکے سدباب کیلئے تجاویزطلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 7مئی تک ملتوی کردی ۔چیف جسٹس، قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل چھ رکنی لارجر بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی ۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر کوئی خفیہ ادارہ بھی اس ضمن میں اپنا موقف یا جواب دینا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب جمع کراسکتا ہے، عدالت نے واضح الفاظ میں قرار دیا ہے کہ وکلا کی منتخب باڈی پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ اس مقدمہ میں کسی وکلا تنظیم کو انفرادی طور پر فریق نہیں بنایا جائیگا، اسلئے مناسب ہوگا کہ فریق بننے کیلئے درخواستیں دائر کرنے والے تمام درخواست گزار پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کےساتھ مشترکہ تجاویزاورسفارشات جمع کرائیں، لیکن اگر اتفاق رائے ممکن نہ ہو تووہ 6مئی تک الگ سے بھی تجاویز اور سفارشات جمع کراسکتے ہیں لیکن انہیں فریق مقدمہ نہیں بنایا جائیگا۔اس مقدمے کی اولین سماعت 3 اپریل ہوئی تھی جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے۔25مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباو¿ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔ ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد 30مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر)تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں انہوںنے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جسکے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔
محنت کش کے حقوق
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدوروں کاعالمی دن گزشتہ روز ان کے حقوق کے تحفظ کے عزم کی تجدید کے ساتھ منایا گیا۔اس سال اس دن کا موضوع موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں کام کی جگہ کو محفوظ اور مزدوروں کی صحت کو یقینی بنانا تھا۔ مختلف سرکاری اور نجی تنظیموں نے محنت کشں طبقے کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کانفرنسز اور سیمینارز سمیت مارچ کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا جبکہ ملک بھ ر عام تعطیل رہی۔پاکستان میں افراطِ زر کی شرح ان دنوں بلند ترین سطح پر ہے۔گزشتہ چندماہ میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تک پہنچ چکی ہے جوکہ جنوبی ایشیا میں بلند ترین ہے۔ اشیائے خورونوش کا شرح افراطِ زر بھی 48 فیصد تک پہنچ چکا ہے ۔پچھلے ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباو¿کی وجہ سے تمام سبسڈیز بھی ختم کردی ہیں۔ایک ایسا ملک جہاں معاشی چیلنجز کی وجہ سے شہریوں کے روزمرہ کے مسائل نظرانداز ہوجاتے ہیں، ایسے میں محنت کشوں کو منصفانہ معاوضہ دینے کا تصور ایک امید کی کرن ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی مہنگائی کی وجہ سے غربت، عدم مساوات اور تفاوت دور کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ہمارے ہاں سب سے اہم سوال یہ ہے محنت کشوں کو ان کی محنت کی کتنی اجرت دی جاتی ہے اور کتنی بروقت دی جاتی ہے۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی ادارے مناسب تنخواہیں بروقت دیں۔محنت کش افراد کو اگر انکی محنت کے مطابق منصفانہ اجرت فراہم کی جائے تو یہ نہ صرف ورکرزبلکہ مجموعی طور پر پوری قوم کےلئے سود مند ہے۔
تیل کی قیمتوں کمی
طویل وقفے کے بعدحکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے پٹرول 5.45، ڈیزل 8.42 روپے لیٹر سستا کردیا ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت 288روپے 49پیسے فی لٹر اور ڈیزل کی نئی قیمت 281روپے 96پیسے فی لٹر ہوگئی ہے۔ نئی قیمتوں کا اطلاق ہو چکا ہے جو 15 مئی تک نافذ العمل رہے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 60، 60روپے فی لیٹر لیوی برقرار رکھی گئی ہے ۔چونکہ گزشتہ 15 روز کے دوران عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیاجس کا فائدہ عوام کومنتقل کیا ہے جو احسن اقدم ہے۔پچھلے پندرھواڑے حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 روپے 53پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8روپے 14پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھا۔ مذکورہ اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 293روپے 94پیسے فی لیٹر ہوگئی جبکہ ڈیزل کی نئی قیمت290روپے 38پیسے فی لیٹر ہو گئی تھی۔جس پر حکومت کا شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اسی طرح عید الفطر سے قبل بھی حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ کرتے ہوئے 9 روپے 66 پیسے مہنگا کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے