عام انتخابات مےں گنتی کے دن باقی ہےں ۔سرد موسم انتخابات کی گہما گہمی کے حوالے سے کچھ گرم ہو چکا ہے ۔پےپلز پارٹی ،مسلم لےگ ن سمےت تمام سےاسی پارٹےوں کے انتخابی جلسے اپنی پوری رعنائےوں کے ساتھ جلوہ گر ہےں ۔اب تک کی انتخابی مہم مےں تےر سے شےر کا شکار کرنے اور نواز شرےف کو نواز دو کے سوا کچھ نےا نہےں ۔لےڈران کے متضاد دعوﺅں مےں وہی پرانے دعوے اور وعدے نظر آرہے ہےں کہ اتنے لاکھ بےروزگاروں کو نوکرےاں ،300ےونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت ترسےل ،مہنگائی مےں اتنے فےصد کمی ،کروڑوں لوگوں کو مفت طبی سہولےات کی فراہمی وغےرہ ۔ان وعدوں پر عملدرآمد کےسے ہو گا اور ان وعدوں کی تکمےل کےلئے پےسہ کہاں سے آئے گا ؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہےں ۔راقم کو اس انتخاب مےں کوئی علےحدہ اور نئی بات نظر نہےں آ رہی ۔ہر حلقہ انتخاب کے امےدواروں کے پوسٹرز ،بےنرز ،بےجز اور ان کی ہاروں سے مزےن تصاوےر ہر طرف سجی ہےں ۔انتخابی دفاتر کھل چکے ہےں ،ڈےرے آباد ہےں ۔اپنے اپنے امےدواروں کی کامےابی کی پےشن گوئےاں موضوع بحث بنی ہوئی ہےں ۔امےدواروں کی سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی گاڑےاں ووٹرز اور عوامی خادموں کے درمےان ان دنوں اٹوٹ رشتے اور بندھن کی گواہ ہےں ۔اپنے حلقہ مےں جنازوں مےں شرکت اور دسوےں ،چالےسوےں کی رسم پر امےدواروں کے تعزےتی وزٹ الےکشن مہم کا حصہ بن چکے ہےں ۔عام دنوں مےں تحت نشےن وزراءسے عام ووٹر کو ملنے مےں مہےنوں لگ جاتے تھے لےکن ان دنوں مےں ےہ مہےنے لمحوں مےں سمٹ گئے ہےں ۔ماضی کی طرح اس بار بھی ےہ الےکشن جےتنے والے رواےتی حصار مےں قےد ہو کر ناقابل پہنچ بن جائےں گے ۔سےاسی لےڈر آج عوام کے روبرو بھےگی بلی بن کر سابقہ کوتاہےوں کی معذرت کے ساتھ اس طرح سےس جھکا رہے ہےں جس طرح شاہی غلام بادشاہوں کے حضور کورنش بجا لاتے تھے ۔وسےع وعرےض ڈےروں پر چلتی مٹھائےاں ،تازہ جلےبےاں ،اور کھانے کی دےگےں الےکشن کی رونق مےں اضافے کا سبب ہےں ۔قوم اےک بار پھر کسی تبدےلی کی منتظر اور اچھے دنوں کی امےد لگائے بےٹھی ہے ۔سےاستدان وہی وعدے کرتے نظر آ رہے ہےں جو گزشتہ 75برسوں مےں کئی بار کر چکے ہےں ۔ےہ غرےب بھی بادشاہ لوگ ہےں جو ہر بار نئی امےدےں وابستہ کر تے ہےں اور ان کے خواب محض خےال بن کر ہمےشہ تعبےر نا آشنا رہتے ہےں ۔جو کروڑوں خرچ کرتے ہےں ان کا مقصد ےہی ہوتا ہے کہ اربوں کمائےں گے ۔بہتی گنگا نہانے کےلئے ہی تو ہوتی ہے ۔غرےبوں کے مسائل وہی دےرےنہ ،جس کے پےٹ مےں روٹی نہ ہو ،اعلیٰ ڈگرےوں کے حامل بےکار زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں ،جہاں طاقت قانون پر حاوی ہو اور دہشت گردی انتہاﺅں مےں ہو ،پھر اےسے لوگ منتخب ہوں جو جابر بھی ہوں اور مکار بھی ،جو غاصب بھی ہوں اور عےار بھی ،توپھر اےسے لوگوں سے امانت مےں خےانت کی توقع ہی کی جا سکتی ہے ۔ےہ ضرور قوم سے بد عہدی کرےں گے اور ملکی وسائل سے اپنا ہی دامن بھرےں گے ۔ےہی وجہ رہی کہ ماضی کے جمہوری ادوار مےں جمہورےت کے ستون سر عام فروخت ہوتے رہے۔ہارس ٹرےڈنگ اور دلائی کےمپ کے واقعات ہمارے سےاستدانوں کے جمہوری روےوں کے غماز ہےں ۔آج بھی سےاستدان عوام کے پاس ،افلاس،عدم مساوات ،ظلم اور بے انصافی کے خلاف اےک مسےحا کے روپ مےں جا رہے ہےں کہ ان تمام بےمارےوں کا شافی علاج ہمارے پاس موجود ہے ۔عوامی مشکلات کے حل کے تےر بہدف نسخے بتائے جا رہے ہےں ۔ اقتدار کے حصول کےلئے ہر ہتھکنڈہ آزماےا جا رہا ہے ۔مختلف سےاستدانوں نے اپنے مفادات کی خاطر وفادارےاں تبدےل کر دی ہےں ۔جہاں سے بھی ملے ،جس پارٹی سے بھی ملے ٹکٹ کا حصول مقصد ٹھہرا لےا ہے ۔ہر سےاستدان نے پہلے سے زےادہ طے شدہ پروگرام کے تحت کسی نہ کسی طرح کرسی تک جانا ہے ۔فوراً پےنترا بدلنا اور جہاں سے بھی اندر گھسنے کا موقع ملے خطا نہ کرنا ۔اگر ان کے نزدےک کوئی چےز ہے تو وہ مصلحت وقت ۔اےک سےاسی رہنما سے کسی نے پوچھا کہ آپ سےاسی پارٹےاں کےوں تبدےل کرتے ہےں تو ان کا جواب ےہی تھا کہ مےری پارٹی تو حکومت ہے کہ وہ بدلتی رہتی ہے ۔ماضی مےں بد عنوانےوں کے فروغ کا سبب مفاد پرست اور ابن الوقت سےاسی عناصر ہی تھے جنہوں نے سےاست کو قومی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کا ذرےعہ بنا کر ہر قسم کی بد عنوانی کو فروغ دےا ۔ےہی وجہ رہی کہ عوام ہمےشہ جمہورےت سے تنگ آ کر آمرےت کو ےاد کرتے ہےں اور فوجی حکومت کو اقتدار کے اےوانوں مےں براجمان ہونے کی دعوت دےتے ہےں اور پھر فرشتے اور لٹےرے مل کر جمہورےت کی صدائےں لگاتے ہےں اور آمرےت پر تنقےد کرتے ہوئے جمہورےت کے بڑے علمبردار بن جاتے ہےں ۔ان کی لچک اور ان کا لائحہ عمل بدلتے حالات اور واقعات مےں تےزی سے تبدےل ہوتے موسموں کے حساب سے تبدےل ہوتا ہے لےکن ”تن بدلتا نہےں ملبوس نےا ہونے سے “
حےرت ناک حقےقت ےہی ہے کہ وہی لےڈر جو تواتر سے انہےں بے وفا کہتے ہےں اور ان پر غدار کی فرد جرم لگاتے ہےں وہ بھی ان کی واپسی کو بسروچشم قبول کر لےتے ہےں ۔شاےد ہمےں سمجھنے مےں غلطی لگ رہی ہے اور ہمارے ہاں سےاست کے بھی شاےد ےہی اصول اور ضابطے ہوتے ہےں جو ہر بار نئی دھڑے بندےاں اور گروپ تشکےل دئےے جاتے ہےں ۔پرانے ساتھی لمحوں مےں اجنبی بن جاتے ہےں ۔وہ کارکن جنہوں نے زندگی بھر پارٹی کے نظرےات کو حرز جاں بنائے رکھا ،صبح شام پارٹی کی سےاسی فکر کو رہنما جانا ، نعرے لگائے ،جلسے کئے ،قربانےاں دےں ،قےد کاٹی ان کی وفاﺅں کو بےک جنبش نظر انداز کر دےا جاتا ہے ۔وطن عزےز مےں عام انتخابات کی سٹےج سج چکی ہے ۔اس انتخابی عمل کا تسلسل ہر حال مےں جاری رہنا چاہےے ۔آج پاکستان کی جمہورےت کو اےثار چاہےے ۔بے مقصد جملے بازی سےاسی فضا کو خراب کر رہی ہے ۔مفروضوں پر بےان بازی ہو رہی ہے ۔قومی رہنماﺅں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پارٹےوں کے منشور کا ذکر کرےں اےک دوسرے پر نفرت کے تےر چلانے سے گرےز کرےں ۔وطن عزےز کے عوام ہمےشہ جمہورےت کے نحےف و نزار پودے کی آبےاری کرتے رہے لےکن ہمارے انفرادی ،ذاتی مفادات اور شخصی خود پسندی نے جمہوری نظام کو پھلنے پھولنے کا موقع نہےں دےا ۔اس طرح ہمارے جمہوری روےے پختہ نہ ہو سکے ۔جمہوری نظام مےں اختلاف رائے کو اےک حسن سمجھا جاتا ہے ۔اےک مثالی اور مہذب معاشرہ وہ ہے جہاں وہ شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھے جس کے نظرےات کی تائےد کرنے والا کوئی بھی شخص پورے معاشرے مےں موجود نہ ہو ۔ پاکستان جو اس وقت بحرانی کےفےت سے دوچار ہے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ سےاستدان اس کی سنگےنی کا احساس و ادراک کرےں اور اےک محب وطن اور عوام کے صحےح نمائندے کے طور پر اپنے کو پےش کرےں ۔آج سےاستدان کامل اےثار اور کامل خلوص سے محدود مقاصد سے اوپر اٹھ کر ،درست ترجےحات کے بل بوتے پر ہی جمہورےت کی ناﺅ کو منزل مراد پر پہنچا سکتے ہےں ۔ جمہورےت ہی دراصل کسی ملک کی اصلی اور حقےقی زندگی ہو تی ہے ۔ملکی استحکام اور بےن الاقوامی خےر سگالی کےلئے اس کی افادےت مسلمہ ہے ۔ جمہورےت مےں ہی اس ملک کی بقا ءاور خطے کا امن پوشےدہ ہے ۔عوام اپنا ووٹ دےانتدار اور ملک سے محبت کرنے والے امےدواروں کو دےں ۔اہل امےدوار ہی ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کےلئے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھول سکےں گے ۔حکومتی ارباب اختےار اور الےکشن کمےشن کا بھی ےہ فرض ہے کہ الےکش کو غےر جانبدار بنانے کےلئے تمام وسائل بروئے کار لائےں تا کہ مستقبل مےں بھی کسی قسم کی بد نظمی کا مکمل قلع قمع ہو جائے ۔اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔آمےن
کالم
سپنوں ،وعدوں ،دعوﺅں اور نعروں کا دلفرےب موسم
- by web desk
- جنوری 31, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 156 Views
- 11 مہینے ago