کالم

سکندر سے مائی بشیراں تک !

سکندر سے تعارف1980 میں سرگودھا ہوا ، اس وقت میں ایک ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنی اور سکندر ایک ”ماٹھی“سی پاکستانی کمپنی میں ملازمت کررہے تھے ۔ نسبتاً ایک بہتر کمپنی میں نوکری آنے پر سکندر وہاں انٹرویو دینے گیا۔ دوران انٹرویو ٹیم کے ایک ممبر نے یکدم پوچھادعائے قنوت سنائیں ۔زندہ دل اورخوش مزاج سکندر نے قدرے حیرت سے پوچھا کہ جناب میں یہاں سیلز کی ایک نوکری کے انٹرویو کےلئے آیا ہوں آپ کی مسجد کے امام کےلئے تو حاضر نہیں ہوا۔سکندر کا یہ تعارف اس لئے کروایا کہ وہ ہمارے گروپ کی جان تھا۔ ہر ہفتہ دوستوں کو اکٹھا کرنا ۔ گپ شپ اور کھانا پینا یہ اس کا کمال تھا، وقت کے ساتھ ساتھ میں راولپنڈی آگیا اور وہ بھی فیصل آباد ،لاہور سے ہوتا ہوا راولپنڈی آگیا۔ لیکن پروفیشنز میں تبدیلی کی وجہ سے ملاقاتیں بہت کم ہو گئیں۔ چند دن قبل اس کافون آیا کہ فلاں فلاں دوست ہوں گے ۔ تم بھی بدھ کی شام فلاں جگہ پر آجانا ،گپ شپ اور کھانااکٹھا کھائیں گے۔ عمر کے لحاظ سے تقریبا ًہم سبھی برابر ہی ہوں گے مگر گمان یہ ہو رہا تھا جیسے زمانہ ابھی بھی 80 کا ہے ۔ رسمی دعا سلام کے بعد سکندر کہنے لگا کہ چند دن قبل میرے ساتھ ایک دلچسپ معاملہ پیش آیا ۔ دوپہر کے وقت کارپورچ میں بیٹھاتھا کہ اس دوران ایک السیشن نسل کا خوبصورت لیکن انتہائی تھکا ماندہ سا چھوٹا کتاکمپاﺅنڈ میں داخل ہوا۔ اس کے گلے میں پٹہ بھی تھا میں نے سوچا ضرور کسی اچھے گھر کا پالتو کتا ہے ۔ میں نے اسے پچکارا تو وہ پاس آگیا ۔ میں نے اس پر محبت سے ہاتھ پھیرا تو وہ دم ہلاتا وہیں بیٹھ گیا۔ بعد میں میں جب اٹھ کر اندر گیا تو وہ کتا بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا اور کھڑکی کے پاس پاﺅں پھیلا کر بیٹھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سو گیا ۔ میں نے بھی کمرے کا دروازہ بند کیا اور صوفے پر آن بیٹھا۔ تقریبا ًایک گھنٹہ نیند کے بعد کتا اٹھا اور دروازے کی طرف گیا تو اٹھ کر میں نے دروازہ کھول دیا وہ باہر نکلا اور چلا گیا۔ اس کے بعد وہ روز آنے لگا ۔ سوتا اور پھر چلاجاتا ۔ میرے دل میں تجسس دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ اتنا شریف سمجھدار اور پیار کرنے والا وہ کتا آخر ہے کس کا اور کہاں سے آتا ہے ۔ایک رو میں نے اس کے پٹے میں ایک چٹھی باندھ دی جس پر لکھ دیا: آپ کاکتا روز میرے گھر آکر سوتا ہے ۔ یہ آپ کو معلوم ہے کیا ؟۔ اگلے دن جب وہ پیارا چھوٹا سا کتا آیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پٹے میں ایک چٹھی بندھی ہوئی ہے اسے نکال کر پڑھا۔ اس میں لکھا تھا یہ بہت اچھا پالتو کتا ہے۔میرے ساتھ ہی رہتا ہے لیکن میری بیوی کی دن رات کی جھک جھک ،بک بک کی وجہ سے وہ چین سے سو نہیں پاتا اور روز ہمارے گھر سے کہیں چلاجاتا ہے ۔ اگر اجازت دے دیں تو کیا میں بھی اسکے ساتھ آسکتا ہوں ؟محفل میں خوب قہقہہ لگا۔تنویر بول پڑے یار بات سنیں مشاہدے میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو دماغ پر نقش ہیںمثال کے طور پر تندور سے روٹی لاتے وقت تھوڑا سا توڑ توڑ کے کھانے میں جو مزا ہے وہ کسی پیزا یا زنگر میں نہیں۔ شوہر چاہے کتنا ہی ‘اعلی تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر یا کسی اعلی درجے پر فائز کیوں نہ ہو جب”بیوی“ نے کہہ دیا آپ نہیں سمجھ سکتے۔ توآپ نہیں سمجھ سکتے ، بس بات ختم ۔ دوسروں کی پلیٹ میں رکھاسموسہ اورس یلفی میں اپنا چہرہ ہمیشہ بڑا نظر آتا ہے۔ سردیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ”چھاﺅں“میں بیٹھو توٹھنڈلگتی ہے اوردھوپ میں بیٹھو توموبائل کی سکرین ہی نظر نہیں آتی۔ ہم پاکستانی جتنی مرضی ترقی کرلیںلیکن اڑتے ہوئے جہازکو دیکھنے کی عادت نہیں جائے گی ۔ بندہ کتھے جائے : انگریز لوگ کہتے ہیں Think before u speak لاہوری کہتے ہیں، سوچی پیاتے بندہ گیا۔پاکستانی دنیا کی انوکھی مخلوق ہے جو امریکہ میں اسلامی سکول اورپاکستان میں امریکی سکول ڈھونڈتے ہیں۔ اردو اور انگلش کا قتل عام کرنے کے ذمہ دار وہ اصل والدین ہیں جو اپنے بچوں کو کہتے ہیں چلو بیٹا یہ جلدی سے Eat کرکےfinish کرو،اتنے فخر سے آرمسٹرانگ بھی چاندپر نہیں چلا ہو گا جتنے فخر اور احتیاط سے پاکستانی مردکاٹن کا سوٹ پہن کرزمین پر چلتے ہیں۔پہلے میراکام کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ پھر میں نے محنتی لوگوں میں بیٹھنا شروع کردیا۔ اب ان کا بھی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ سب خوب ہنس رہے تھے۔ اس موقع پر بھلا بشیر گھمن کیسے چپ رہ سکتا تھا۔کہنے لگا لو جی ایک مائی صاحبہ کا واقعہ سنو! مائی بشیراں ایک بوڑھی عورت گواہی دینے عدالت پیش ہوئی تو وکیل استغاثہ نے گواہ پر جرح شروع کی۔ بڑھیا قصبے کی سب سے قدیمی مائی تھی اور دنیا کا سرد گرم خوب جانتی تھی ۔ وکیل استغاثہ بھرپور اعتماد سے مائی کی طرف بڑھااور اس سے پوچھا مائی بشیراں کیا تم مجھے جانتی ہو ؟ مائی بشیراں : ہاں قدوس میں تمہیں اس وقت سے اچھی طرح جانتی ہوں جب تم ایک بچے تھے۔ اور سچ پوچھو تو تم نے مجھے شدید مایوس کیا ہے۔ تم جھوٹ بولتے ہو ۔ لڑائیاں کرواتے ہو ۔ اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہو ۔ طوائفوں کے پاس بھی جاتے ہو۔ لوگوں کو استعمال کرکے چھوڑ دیتے ہو اور پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتے ہو۔شراب پیتے ہواور جوا بھی کھیلتے ہو۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو جبکہ تمہاری کھوپڑی میں مینڈک جتنا دماغ بھی نہیں۔ ہاں ہاں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں ،وکیل ہکابکا رہ گیا اسکی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا پوچھے ۔ گھبراہٹ میں اس نے وکیل دفاع کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا مائی بشیراں تم اس شخص کو جانتی ہو ؟ مائی بشیراں : اور نہیں تو کیا جیسے میں عبدالغفور کو نہیں جانتی ؟ ارے ا سے اس وقت سے جانتی جب یہ جانگیے میں گھومتا تھا۔ سارا محلہ اس سے تنگ ،ہر کوئی اس کی برائی کرتا ۔ اوپر سے یہ ہیرونچی بھی ہے کسی بندے سے تعلقات نہیں بنا کر رکھ سکتا۔ شہر کا سب سے نکما وکیل ۔ چار بندیوں سے اس کے افیئر چل رہے ہیں ۔ جس میں تمہاری بیوی بھی ہے ۔ کئی بندوں سے مار کھا چکا ہے۔ جانتی ہوں اسے اچھی طرح سے۔ جج نے دونوں وکیلوں کو اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے بولا اگر تم دونوں احمقوں میں سے کسی نے مائی بشیراں سے یہ پوچھا کہ کہ وہ مجھے جانتی ہے تو دونوں کو پھانسی دے دوں گا ۔بھائیو! مائی بشیراں کو جاننے کے لئے کسی زیادہ ریاضت کی ضرورت نہیں ہے ۔ پرتکلف کھانے سے لطف اندوز ہوئے ، دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور اجازت حاصل کی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے