پاکستان کی سیاست میں بعض رہنما ایسے ہوتے ہیں جو اپنی چالاکیوں اور اقتدار کیلئے کی جانے والی محاذ آرائیوں کی وجہ سے ہمیشہ خبروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان اُن رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہیں سیاسی حلقوں میں”مہرہ ” اور ”چالاک ”قرار دیا جاتا ہے۔ اِن کی سیاست کی تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں چاہے اِس میں ساتھ بیٹھنے والے حلیفوں کو بھی دھوکہ دینا پڑے۔گزشتہ برسوں کے سیاسی تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے سیاسی اقدامات میں مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ متوقع دھوکہ دہی کے پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے میں یہ حقیقت عیاں ہو گئی تھی کہ مذاکرات کے دوران اِنہیں پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو دھوکہ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ اِنہوں نے اپنے چند حلیفوں کے ساتھ مل کر ترمیم کو پاس کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ عمل عوام کی نظر میں ایک ایسا واقعہ بن گیا جو سیاسی اعتماد کی کمی کا باعث بنا۔ اب جب 27ویں آئینی ترمیم کی بات چل رہی ہے تو اِس پر غور و فکر کے دوران بھی وہی رویہ دہرائے جانے کا خدشہ نظر آ رہا ہے۔موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ مولانا فضل الرحمان ممکنہ 27ویں آئینی ترمیم جو وفاقی سطح پراہم تبدیلیاں لا سکتی ہے بلکہ صوبائی حکومت کے توازن میں بھی تبدیلیاں متوقع ہیں کے لیے کس حد تک سرگرم ہیں اور کس طرح صوبہ خیبر پختون خواہ کی نئی سیاسی تشکیل پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایساوہ یہاںاپنے مطلوبہ سیاسی مفادات اور اقتدار کیلئے کررہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیںجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر سطح پر اپنی حکمت عملی نافذ کرنے کیلئے تیار ہیں۔مولانافضل الرحمان کے سیاسی تجربے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ عوامی سطح پر مذاکرات کیلئے میز پر آتے ہیں اور دوسرے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ہمدردی وتعاون کے بہانے بیٹھتے ہیںلیکن حقیقت میں یہ ملاقاتیں صرف اپنے مخصوص اہداف کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ اُن کی سیاسی حکمت عملی میں سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ وہ حریفوں کو اعتماد میں لے کر پھر غیر متوقع انداز میں اُن پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اِس طریقہ کار کی مثالیں ماضی میں کافی ملتی ہیں اور اِسی وجہ سے اُن کے سیاسی فیصلے اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت میں مولانا فضل الرحمان کو ایک ایسا ”اہم ستون ”قرار دیا گیا ہے جو پارٹی کے داخلی اور خارجی دونوں معاملات میں سرگرم کردار ادا کرتا ہے۔ اِن کے سیاسی اقدامات میں جس انداز کی مستقل مزاجی اور چالاکی نظر آتی ہے اِس نے اِنہیں پارٹی کے دوسرے رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور اثرانداز بنا دیا ہے۔ اِن کے اِس متحرک کردار کی وجہ سے دیگر جماعتیں بھی اِن کی حکمت عملی کو محتاط انداز میں دیکھتی ہیں اور اکثر سیاسی فیصلوں میں اِنہیں سنجیدگی کے ساتھ مدنظر رکھتی ہیں۔اگر ہم موجودہ سیاسی منظرنامے کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی موجودگی اور اِن کی حکمت عملی کی وجہ سے آئندہ چند ماہ میں سیاسی سرگرمیاں اور بھی پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جاری تیاریاں اور مذاکراتی عمل اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ ہر ممکنہ راستے کا جائزہ لے کر اپنی ترجیحات کے مطابق قدم اٹھانے میں یقین رکھتے ہیں۔ اِس دوران صوبہ خیبر پختونخواہ کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی جاری ہیںجو اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اُن کا دائرہ اثر صرف وفاقی حکومت تک محدود نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں پر بھی محیط ہے۔سیاست کے ماہرین کا ماننا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حکمت عملی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود کو ہر وقت سرگرم اور متحرک رکھتے ہیں۔ اُن کا یہ رویہ دیگر پارٹی رہنماؤں کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کبھی بھی غیر متوقع اقدامات کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اِس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست میں دھوکہ دہی اور چالاکی ایک طبعی عنصر کی طرح موجود ہے جو ہر سیاسی موڑ پر ظاہر ہو سکتی ہے۔مزید یہ کہ اِن کی سیاسی سرگرمیوں کا اثر نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ ملکی سطح پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تجربے نے یہ واضح کیا کہ اِن کے اقدامات کا دائرہ کار وسیع اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اِسی وجہ سے موجودہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بھی سیاسی حلقے محتاط اور خبردار ہیں۔ اِن کا یہ انداز کہ مذاکرات کے دوران حلیفوں کے ساتھ بیٹھ کر پھر غیر متوقع طور پر مقاصد حاصل کیے جائیں، سیاسی منظرنامے کو ہمیشہ غیر یقینی اور متنازعہ بنا دیتا ہے۔اِس صورتحال میں یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان کی حکمت عملی نہ صرف سیاسی مفادات کیلئے ہے بلکہ اِس میں اِن کی ذاتی سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی شامل ہے ۔ وہ ہر معاملے میں خود کو سرگرم اور اہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اِس رویے نے اِنہیں سیاسی حلقوں میں ایک متحرک اور کبھی کبھی غیر متوقع رہنما کے طور پر متعارف کروایا ہے ۔ آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حکمت عملی اور اِن کے اقدامات پاکستان کی سیاست میں ایک مستقل اور پیچیدہ عنصر کے طور پر موجود ہیںاِن کے رویے، مذاکراتی چالاکیاں اور آئینی ترامیم کے حوالے سے اِن کی سرگرمیاں ملکی سیاسی ماحول پر اثر ڈالتی ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تجربے نے اِس بات کی عکاسی کی کہ اِن کے سیاسی فیصلے صرف پارٹی کی حدود تک محدود نہیں بلکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر بھی اہم اثر ڈال سکتے ہیں۔ 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے میں بھی یہی صورتحال برقرار ہے اور ملک کے سیاسی مستقبل کیلئے یہ ایک نگران اور تجزیاتی نقطہ نظر سے غور طلب ہے۔پاکستانی عوام اور سیاسی تجزیہ نگار اِس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں مولانافضل الرحمان کی سیاسی سرگرمیاں کس حد تک اثرانداز ہوتی ہیں اور اِن کے اقدامات کس طرح ملکی سیاست کے توازن کو بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کی سیاست ہمیشہ خبروں میں رہتی ہے اور اِن کے ہر اقدام پر تجزیہ اور بحث جاری رہتی ہے۔

