کالم

سیاسی جماعتوں میں نتیجہ خیز مذاکرات ہونے چاہئیں

riaz chu

ملکی مسائل کے تدارک کےلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ معیشت کی بہتری اور امن وامان کی خراب ہوتی صورتحال ملک میں سیاسی استحکام لائے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت اور دہشتگردی کے بڑھتے واقعات ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ مشکل صورتحال متقاضی ہے کہ سیاست دان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک کا سوچیں۔ میثاقِ معیشت اور میثاقِ انسدادِ دہشتگردی کےلیے آگے بڑھیں، کیونکہ اب تاخیر کی گنجائش باقی نہیں۔ اگر معیشت بہتر نہ ہوئی اور دہشتگردی کنٹرول نہ ہوئی تو ملک میں انتخابات کیسے ہوسکتے ہیں؟ کون حکومت کرسکے گا؟ اگر ہم نے اب بھی کچھ معاملات پر سنجیدگی نہ دکھائی تو تشویش کے بادل مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔ وطن عزیز میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے حوالے سے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات کے بعد اپنی اپنی قیادت کے مشورے کے بعد پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد تجاویز ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے۔ پی ڈی ایم بجٹ پیش کرنے تک حکومت برقرار رکھنا چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف 14 مئی تک حکومت کے خاتمے کی خواہشمند ہے۔دونوں جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 70 فیصد مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں، ہم چاہتے ہیں بجٹ سے پہلے اور حکومت بجٹ کے بعد الیکشن چاہتی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کی کوشش ہے معاملہ حل کی طرف جائے۔ بہرحال سیاسی کشیدگی کے اس دور میں یہ خبر خوش آئند ہے کہ بالآخر حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف میں مذاکرات شروع ہوگئے۔حالات کو اس نہج تک آنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ ریاست کے ستون ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے اور ایسے موقف اختیار کر لیے جاتے جن پر کوئی بھی فریق سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے جس کی زیادہ ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہے کیونکہ عوام کی توقعات اول درجے میں سیاسی قیادت ہی سے جڑی ہوتی ہیں۔ ایک عام آدمی ملکی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے انتظامیہ یا مقننہ کی طرف دیکھتا ہے، عدلیہ کے بارے میں وہ ایسا نہیں سوچتا کہ وہ مذکورہ مسائل کا حل فراہم کرے گی۔اب سیاسی قیادت نے جو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے یہ ہر اعتبار سے بہت مناسب اور معقول ہے۔ ملک اس وقت جس سنگین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے اس سے نکلنے کی صورت بھی سیاسی قیادت کے باہمی مشوروں ہی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر سیاسی قیادت کے مابین جاری آویزش ختم ہو جاتی ہے یا وقتی طور پر اس میں تعطل آ جاتا ہے تو کئی معاملات مزید بگڑنے سے فوری طور پر رک جائیں گے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب فریقین اپنے اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کرتے ہوئے دوسرے کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں۔پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری بھی آگے بڑھنے کے لیے مذاکرات کی تجویز کی حمایت کرچکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہو۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے متنبہ کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے مذاکرات نہ کیے تو رہی سہی جمہوریت بھی ختم ہو جائے گی۔ قومی ادارے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی دھڑے بندی کا شکار ہوگئے۔ اداروں کے اندر جنگ کا آغاز بدترین حالات کا آئینہ دار ہے۔ ملک پر ایسا ٹولہ مسلط ہے جس نے عوام کا جینا عذاب بنا دیا۔ عدالتیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن مکمل غیر جانبدار ہوجائیں، سیاسی جماعتیں قومی انتخابات کےلیے راضی ہو جائیں۔
ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے یہی مسائل کا حل ہے، مرکز اور چاروں صوبوں میں ایک دن الیکشن کا اعلان ہونا چاہیے۔ گزشتہ ایک سال سے نشوونما پانے والے سیاسی انتشار کا نقصان ہمیں پہلے ہی ملکی معیشت کے کمزور ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں اپنی ناروا شرائط کے ساتھ مزید جکڑنے کی کوششوں میں ہے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کے بدخواہ عناصر بھی ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے آج ہمیں قومی سیاست میں ذاتی سیاسی مفادات اور اپنی اپنی اناﺅں سے ہٹ کر قومی اتحاد و یکجہتی کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کیلئے بہرصورت تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کے تناظر میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ منصفانہ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کا مالی وانتظامی لحاظ سے خودمختار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے آئندہ مارشل لاءنہ لگانے کے اعلان سے شکوک وشبہات ختم ہوگئے۔ہم چاہتے ہیں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور سٹیبلشمنٹ مکمل طور نیوٹرل ہوجائے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملک میں سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل گئے۔ انتقام کے نعرے ملک کے لیے تباہ کن ہیں اور پولرائزیشن خطرناک حدیں چھو رہی ہے۔ اب نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قوم میں اتفاق پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ سیاست گالم گلوچ کا نہیں، دلیل سے بات کرنے کا نام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے