کالم

سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا سلسلہ!

گزشتہ سے پیوستہ
سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں بھی جاری رہا، کچھ افراد کو دولت، کچھ کو وزارتی ترغیبات اور کچھ کوحکومتی دبا کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔ یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو دور میں بھی جاری و ساری رہا اور 1977کے مارشل لامیں بھی آج جیسے ہی حالات تھے کہ سبھی پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ لیکن بعد میں سبھی نے دوبارہ پیپلزپارٹی نہ صرف جوائن کی بلکہ بڑے بڑے عہدے بھی حاصل کیے۔ ان میں نمایاں غلام مصطفی کھر، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی جتوئی ، اعتزاز احسن اور سردار احمد علی و دیگر رہنما شامل تھے۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاکے بعد ن لیگ میں سے آدھی سے زائد ن لیگ خالی ہوگئی تھی، چوہدری برادران، شیخ رشید سمیت بہت سے رہنما ن لیگ کو چھوڑ کر چلے گئے، حتی کہ ق لیگ کو ن لیگ پارٹی 2کہا جانے لگا۔ لیکن 2008میں مشرف حکومت کے بعد 90فیصد لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں واپس چلے گئے۔ جبکہ (ق) لیگ پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی جماعت بن گئی تھی۔ مشرف کابینہ کے کئی وزرا یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ادوار میں بھی وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں پرویز مشرف کابینہ کے بیشتر وزرا شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ 2018میں ایسے سیاستدانوں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن چکی تھی کیونکہ بظاہر پہلے ہی یہ ہوا بن چکی تھی کہ کرکٹ سٹار عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی نسبت سے سیاست میں کرکٹ کی اصطلاحات بکثرت استعمال ہونے لگیں اور وفاداریاں بدلنے کی بات وکٹیں گرنے سے بدل گئی۔میں نے اس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ ایسا عمل ہماری جمہوریت کو نقصان پہنچائے گا۔ اور آج بھی میں یہی کہوں گا کہ بقول شاعر ہماری جمہوریت ایسے ہے کہ
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیئرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفرنہ تھے
خیر اس وقت صبح و شام یہی بریکنگ نیوز چل رہی تھیں کہ پی ٹی آئی نے فلاں جماعت کی وکٹ گرا دی، کپتان نے ایک اور بڑی وکٹ گرا دی یا فلاں پارٹی کی مزید اتنی وکٹیں گر گئیں۔ اسے مکافاتِ عمل کہیں یا پاکستان کی سیاسی روایت آج پھر ملک میں سیاسی وکٹیں گرنے کا موسم آیا ہوا ہے مگر اس بار وکٹیں صرف ایک ہی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف ہی کی گر رہی ہیں۔ یہ عمل اچھا ہے یا برا اس بات سے قطع نظر ہم صرف اسے ملک کی ایک سیاسی روایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کہنے کو تو ایک جمہوریہ ریاست ہے لیکن ہماری جمہوریت ابھی تک مضبوط نہیں ہو سکی ہے۔ ملک کی تباہ حال معاشی صورتحال نے حالات کو مزید گمبھیر بنا رکھا ہے، مہنگائی و بیروزگاری سے لوگ اس قدر پریشان ہیں کہ عام آدمی کو اس جھمیلے سے کوئی غرض ہی نہیں۔ غریب کیلئے دو وقت کی روٹی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اسی لیے لوگ ملک کی سیاسی صورتحال میں دلچسپی ہی نہیں لے رہے۔ بہرکیف پارٹیوں میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ جو جاتے ہیں، انہیں دبا میں لا کر ایسے اقدام کروائے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ 75سالوں سے ایک ہی گیم کھیلی جا رہی ہے، وہ فلاپ ہو یا کامیاب مگر کھیلنے والے آج بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں اور اپنے مطلوبہ مقاصد بھی حاصل کر رہے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ 75سال سے ایک ہی اسکرپٹ ہے جس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب خود ملک کا سافٹ وئیراپ ڈیٹ کردیا گیا ایک ویلفیئر اسٹیٹ سے سیکورٹی اسٹیٹ بناکر، وہ دن ہے اور آج کا دن اس ملک میں جمہوریت نام کی فلم چلنے ہی نہیں دی گئی۔ اس پرانے اسکرپٹ میں سیاست ایک گناہ سے کم نہیں اور سیاستدان ایک ولن کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ جہاں ولن آپس میں علاقہ پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اگر اسکرپٹ کے مطابق کوئی چلتا رہتا ہے تو اس کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اگر اس نے کچھ آگے پیچھے ہونے کی کوشش کی تو ہدایت کار اس کا کردار ہی تبدیل کردیتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ فلم تبدیلی کو ریلیز کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے اور عین ممکن ہے کہ اگر بات نہ بنی تو اس فلم پر پابندی نہ بھی لگے تو اس کی نمائش اس سال مشکل نظر آرہی ہے۔ اب دیکھئے مزید کتنے تھانیدار تبدیل ہوتے ہیں جس کی ایک جھلک عین ممکن ہیرو کی تبدیلی کی صورت میں نظر آئے مگر کیا عوام اسے قبول کریں گے۔ خدارا اسکرپٹ تبدیل کریں۔
جبکہ اس کے برعکس اگر خان صاحب نے اب بھی حکمت عملی اور عقلمندی سے کام نہ لیا تو مزید خرابی پیدا ہوگی۔ لہذاابھی بھی وقت ہے کہ خان صاحب خود احتسابی کریں، اداروں سے الجھنے کے بجائے مصلحت سے کام لیں ،دوسرا پارٹی کو دوبارہ منظم کرنا ہوگا۔ تیسرا اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکالنا ہوگا جو انہیں غلط مشوروں سے نوازتے رہے، چوتھا انہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بذات خود مل بیٹھنا ہوگا۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خود بات چیت سے گریز کریں اور ٹیم تشکیل دے دیں۔ پانچواں کام انہیں یہ کرنا ہوگا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے ہوئے وہاں اپنی نمائندگی دکھانا ہوگی ورنہ ایک بڑا ادارہ ان سے بہت دور ہو جائے گا۔ اور سب سے اہم کام جو انہیں کرنا ہوگا کہ احتسابی اداروں کے ساتھ تعاون کر کے انہیں مطمئن کرنا ہوگا۔ اور رہی بات پارٹی چھوڑنے والوں کی ، تو ان کی پرواہ نہ کریں یہ ایک فطری عمل ہے، اسے فطرت پر ہی چھوڑ دیں، کیوں کہ تاریخ ان کا نوحہ بھی خود لکھتی ہے اور ان کے بارے میں فیصلہ بھی خود کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri