کہنے کو مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کشمیر میں کئی دن کلیدی اہمیت کے حامل ہیں مگر 27اکتوبر کی اہمیت یوں مسلمہ ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب 1947میں بھارت افواج مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر دھونس اور دھاندلی سے کام لیتے ہوئے داخل ہوگئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی تاریخ سے شناسا کسی عام وخاص کے لیے مشکل نہیں کہ وہ جان سکے کہ کئی دہائیوں سے جاری بھارتی ظلم وستم کے باوجود اہل کشمیر نے جدوجہد تادم تحریر ماند نہیں پڑی ، تاریخی سچ یہ ہے کہ اگست 1947 کو کشمیر کے مہاراجہ نے حکومت پاکستان کے ساتھ اتفاق کرلیا کہ جو معاہدات قبل تاج برطانیہ اور ریاست کے درمیان تھے ان ہی انتظامات کو پاکستان کے ساتھ روا رکھا جائے گا مگر افسوس کہ بھارت نے اس کی خواہش پوری نہ ہونے دی، حالیہ سالوں میں بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ بھارت نے 5اگست 2019 کو مقبوضہ وادی پر اپنے ناجائز قبضہ کو مضبوط بناتے ہوئے علاقے کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرکے مسلم آبادی کو ہندو آبادی سے کم کرنے کی ناکام کوشش کی، حالات کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا کہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں 05۔41 لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکٹس من پسند لوگوں کو جاری کیے ہیں جن کی اکثریت ہندووں کی ہے ،اعداد وشمار کے مطابق 1991 سے لے کر اب تک 9 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ وادی میں موجود ہیں، ماضی قریب میں شائع ہونے والے ڈوئیزر کے مطابق بھارتی فوج کے ہاتھ ماوارئے عدالت 96 ہزار کشمیری قتل کئے گئے، مزیدیہ کہ 162000 کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر بھارتی سیکورٹی فورسز نے گرفتار کیا ، 25000 سے زائد افراد مختلف کاروائیوں میں پلیٹ گنز سے زخمی ہوئے،23000 عورتیں بیوہ جبکہ 108000 بچے یتیم ہوگے ، بھارت کے جابرانہ ہتکھنڈوں کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مواصلات کے زرائع کشمیریوں کیلئے یا تو بند ہیں یا پھر ان پر چیک اینڈ بینلس کا ایسا نظام نافذ ہے کہ عملا وہ اپنی افادیت کھو چکے ، سٹینڈ ود کشمیر کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 2017سے فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام پر تحریک آزادی کشمیر سے متعلق کوئی مواد نشر نہیں ہونے دیا جاتا، مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت 129 ممالک میں سے ایسے ملک کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے جہاں کے مقبوضہ علاقے کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش سب سے زیادہ دیکھنے میں آتی ہے ، آفس آف دی ہائی کمیشنرفار ہومین رائٹس کے تین سالہ ڈیٹا کے مطابق بھارتی فوج نے کشمیر میں کم ازکم کم 782 آپریشن کییجن میں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں بلکہ 802 کشمیریوں کی املاک کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا گیا ،گزرے ماہ وسال کا طائرانہ جائزہ ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ اگست 1947 میں مقبوضہ کشمیر پر قبضہ درحقیقت بھارت کی سوچی سمجھی چال تھی ، مثلا ایسا نہیں ہوا کہ بھارتی سرکار نے اچانک ہی اپنی افواج کشمیریوں کو کنڑول کرنے کے لیے اتار دیں، کشمیر کی جدوجہد آزادی میں اب تک کئی ادوار آئے مثلا کبھی مسلح جدوجہد کی گی تو کبھی کشمیریوں نیسیاسی عمل یا بات چیت سے تنازعہ کو حل کرنے کی سعی کی مگر ٹھوس پئش رفت نہ ہوسکی ، ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارت کبھی بھی اہل کشمیر کو ان کا بنیادی حق یعنی حق خود ارادیت نہیں دے گا، سبب یہ ہے کہ انتہاپسندوں کے اکھنڈ بھارت کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب وہ سارے ہندوستان کو ہندووں کا ملک بنا ڈالیں ، دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کو عالمی سطح پر نظر انداز کرنے کی بھی کئی وجوہات ہیں، مثلا ہم جانتے ہیں کہ آج امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی و معاشی کشیدگی عروج پر ہے ، واشنگٹن کا خیال ہے کہ بیجنگ جس طرح سے معاشی اعتبار سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے اس کا یقینی نتیجہ عالمی سطح پر اس کے سیاسی اثررسوخ میں اضافہ کی شکل میں نکلے گا ، امریکہ اور مغربی ملکوں کو چیلنج کرنے والے ممالک میں چین اور روس نمایاں ہیں، روس کے یوکرین پر حملے سے اگرچہ ماسکو کے مسائل میں اضافہ ہوا مگر وہ بدستور یورپ کے لیے درد سر ہے، حال ہی میں فلسطین اسرائیل جنگ میں بھی روس اور چین کا نقطہ نظر مغربی ملکوں کی رائے کے برعکس سامنے آیا ، اس پس منظر میں امریکہ اور اس کی ہم خیال ریاستوں کی بھارت کیلئے کی جانے والی حمایت سمجھ میں آنے والی بات ہے ، واشنگٹن سمجھتا ہے کہ نئی دہلی کو چین کے مقابلے کیلئے تیار کرنے کیلئے بھرپور تعاون کرنا چاہے چنانچہ جب بھارت کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے خالصتان تحریک کے اہم رہنما کو کینڈا میں قتل کیا تو واشنگٹن نے فیصلہ کن درعمل دینے سے گریز کیا ، پھر پھر ہوا یوں کہ پاکستان اور بھارت کی رواں سال مئی میں ہونے والی مختصر مگر اہم جنگ نے امریکہ ہی نہیں علاقائی اور عالمی طاقتوں کا نئی دہلی بارے نقطہ نظر بدل کر رکھ دیا ، بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین سے یہ راز اوجھل نہیں کہ چونکہ عالمی منظر نامہ میں مفادات اور صرف مفادات کو ہی دوام حاصل ہے لہٰذا بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں بدترین شکست نے نئی دہلی کے ساتھ مغرب کی امیدیں ماند پڑ چکیں ، اس نئی تبدیل شدہ صورت حال میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ جہاں نئی دہلی کی پریشانی میں اضافہ کرگیا وہی اہل کشمیر کیلئے امید، جذبہ ، ولولہ اور حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔

