ہرمعاشرے میںایسے افرادموجود ہیں جوخدمت خلق کے جذبےسے سرشارہوتے ہیں ، چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان مخیرشخصیات کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، بس انہیں اجاگر اور ان جیسا بننے کی کوشش کرنا ہوگی ،ہمارے ہاں عام طور پر یہ نظریہ رکھا جاتا ہے کہ اشرافیہ یا ایلیٹ کلاس درد دل بھی نہیں رکھتی،یہ لوگ کسی قسم کا تعمیری تعلیمی اور ادبی ذوق بھی نہیں رکھتے ، یعنی اشرافیہ ایک ایسی کلاس کے طور پر متعارف کروائی جاتی ہے کہ جہاں صرف عیاشیاں ہیں، جہاں دھن دولت جمع کرنا ایک نہ ختم ہونے والا لالچ ہے ، لیکن میں اس کالم میں جس شخصیت کا تعارف کرارہا ہوں وہ کوئی عام شخصیت نہیں، جیسے بھارت میں رتن ٹاٹا اور دیگر لوگ ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی درد دل رکھنے والے اور کچھ کر کے دکھانے والے لوگ اشرافیہ میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی انڈسٹریز کی بنیادیں اپنی ذاتی جدوجہد پر رکھیں تو وہیں پر اپنے مشاغل یعنی اپنی ادبی یا تعلیمی شوق کو پورا کرنے کے لیے یونیورسٹیوں تک قائم کر ڈالیں ۔یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ دنیا میں بل گیٹس ایک ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی اس لیول کے نام اور اس لیول کے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنا سرمایہ اگر انڈسٹری میں لگایا تو انہوں نے وہیں اپنا سرمایہ تعلیم و ہنر کی ترویج کے لیے بھی استعمال کیا،انہی میں سے ایک نام سید بابر علی شاہ کاہے، حالیہ دورہ پاکستان میں ان کے ادارے اور ٹیم سے بڑی خوبصورت ملاقات رہی۔ سید بابر علی پاکستان کے کامیاب ترین بزنس مین مانے جاتے ہیں، انہوں نے پیکجز لمیٹڈ (کاغذ اور گتہ بنانے والی پاکستان کی سب سے بڑی مِل)مِلک پیک لمیٹڈ ، جو اب نیسلے پاکستان لمیٹڈ ہے ( پاکستان کی سب سے بڑی فوڈپراسیسنگ کمپنی ) ، ٹیٹرا پیک پاکستان لمیٹڈ، آئی جی آئی انشورنس کمپنی لمیٹڈ،ٹرائی پیک فلمز لمیٹڈ، اور آئی جی آئی اِنوسٹمنٹ بینک کا صرف خواب ہی دیکھا بلکہ اللہ تعالی کے بے پناہ کرم اور اپنی شب و روز محنت سےاپنے خوابوں حقیقت کا روپ بھی دیا۔ اس کے علاوہ وہ سید بابر علی سنوفی اوینٹس پاکستان لمیٹڈ، سیمنزپاکستان انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ اور کوکاکولا بیوریجز پاکستان لمیٹڈ کے بھی چیئرمین ہیں۔ سید بابرعلی شاہ مشترکہ کاروبار پر یقین رکھتے ہیں اسی لیے ان کے بیشتر کاروبار بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچرز ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم ہونے کے ناطے انہوں نے 1985 میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) قائم کیا جس کے وہ پہلے پروچانسلر بھی رہے۔ لمز مینجمنٹ ایجوکیشن میں پاکستان کا سب سے مستند ادارہ سمجھاجاتا ہے۔ 1992 میں انہوں نے پرائمری اور سکینڈری سکول کے اساتذہ کی تربیت کے لیے علی انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی اس کے علاوہ سید بابر مندرجہ ذیل تعلیمی اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں ،ایچیسن کالج، کنیئرڈ کالج اور لاہور اسکول آف اکنامکس۔ علاوہ ازیں وہ ساوتھ ایشیاانیشیاٹیو آف ہارورڈ یونیورسٹی کے بانی رکن اور ساوتھ ایشیا سینٹر فار پالیسی اسٹڈیز، نیپال کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔ انہوں نے 1993 میں پاکستان کے وزیر برائے خزانہ، اقتصادی امور و منصوبہ بندی کے عہدے پر بھی فرائض انجام دئیے ۔ سید بابر نے ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (جو پہلے ورلڈ وائلڈلائف فنڈ تھا) کی ترویج کے لیے بھی کام کیا، جہاں انہوں نے 1972 سے 1996 کےد وران پاکستان میں اور بیرون ملک مختلف عہدوں پر ذمہ داریاںنبھائیں۔ وہ ہز رائل ہائی نیس شہزادہ فلپ ، ڈیوک آف ایڈنبرگ کے بعد 1996سے 1999 تک ڈبلیو ڈبلیوایف کے بین الاقوامی صدر بھی رہے۔ اس وقت سید بابر ایمروٹیس، ڈبلیو ڈبلیو ایفانٹرنیشنل کے نائب صدر اور ایمروٹیس ڈبلیو ڈبلیو ایف کے صدر کے عہدے پر بھی کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے 1985میں بابر علی فاونڈیشن قائم کی جو پاکستان میں تعلیم اور صحت کےشعبوں میں ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ وہ لیٹن رِحمت اللہ بینولینٹ ٹرسٹ کراچی اور شالامار ہسپتال لاہور کے رکن بھی ہیں سید بابر کو حکومت سوئیڈن، ہالینڈ کی طرف سے اعزازات و ایوارڈ ، برطانیہ کی طرف سے OBE ( 1997 ) سے نوازا گیا جبکہ مک گل یونیورسٹی، مانٹریل،کینیڈا نے انہیں قانون کی اعزازی پی ۔ایچ۔ ڈی۔ ڈگری سے نوازا گیا۔ ( 1997 )۔سید بابر علی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک انسان ہیں، ان سے ملاقات اور ان کے بارے میں یہ سب لکھتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستان میں ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے پاکستان میں صنعتی اور تعلیمی شعبوں کو بدلنے اور جدیدیت کی طرف لیجانے میں اپنا کردار اس خوش اسلوبی سے نبھایا ۔ سید بابر علی آزادیِ اظہارِ رائے، آزادی انجمن سازی(یونین سازی)پر یقین رکھتے ہیں انکے اداروں یونینز قائم ہیں ۔ سید بابر علی شاہ کے تعلیم کے شعبے میں دو اہم پراجیکٹس بھی ہیں ۔
1۔ سیدانوالہ سکول سسٹم دیہی علاقوں میں جدید تعلیم کی ترویج کےلئے قصور کے پسماندہ ترین ایریا میں بچوں اور بچیوں کےلئے علیحدہ علیحدہ اے لیول اور او لیول تک کی مفت تعلیم کے لئے سیدانوالہ سکول سسٹم کا آغاز کیا جو بعد ازاں کالج کا درجہ اختیار کر چکا ہے ۔اسی طرح محمود بوٹی لاہور میں سکول سسٹم کا قیام ۔ 2۔ نقش سکول آف آرٹساندرونِ لاہور تاریخی حویلی میں 2003میں نقش سکول آف آرٹس قائم کیا جو کہ پاکستان میں نیشنل کالج آف آرٹس کے بعد فنونِ لطیفہ کی جدید تعلیم کےلئے سب سے مستند ادارہ ہے ۔ پیکیجنگ سے متعلقہ خام مال کی تیاری کےلئے الائیڈ انڈسٹری کا قیام 1994 میں ڈی آئی سی جاپان(سابقہ کوٹس لوریلکس)کےساتھ جوائنٹ وینچر کے تحت ڈی آئی سی پاکستان کا قیام عمل میں لائے ۔2016میں معدنی بنیاد پر مختلف انواع کے صنعتی مٹیریلز کی تیاری کےلئے سوئٹزر لینڈ کے اومیا گروپ سے جوائنٹ وینچر کے تحت اومیا پیک پاکستان کا قیام ۔ دیگر صنعتی ادارے میں جوائنٹ وینچر کے تحت ایس سی جانسن پاکستان کو پیکیجز گروپ میں شامل کیا ۔ 2021میں صنعتی استعمال کےلئے کارن بیسڈ سٹارچ کی تیاری کےلئے سٹارچ پیک پاکستان کا قیام ۔ عالمی سطح پر پیکیجنگ کے شعبہ میں صنعتوں کا قیام ۔1998پرنٹ کیئر سری لنکا کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے تحت پیکیجز لنکا (سری لنکا)کا قیام ۔1998 میں ساﺅتھ افریقہ میں فلیکسیبل پیجکنگ کنورٹرز کا قیام ۔2017میں چانٹلرپیکیجز کینیڈا کا کنٹرول حاصل کیا ۔ ماضی میں دنیا کے ممالک کی صنعتوں کو وقتا فوقتا پیکیجنگ کے شعبہ کے ماہرین کی معاونت اور ٹیکنالوجی فراہم کی ، نائیجیریا ، تنزانیہ، ایتھوپیا ، سوڈان ، وسط ایشیا (سابقہ رشیا)اور شام بھی شامل ہیں۔یقینا سید بابر علی شاہ کی انسانیت اور معاشرے کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں،ہمیں سید بابر علی شاہ جیسی شخصیات کی قدرکرنی چاہئے اورانسانیت اورمعاشرے کےلئے ان خدمات کواجاگرکیاجاناچاہئے تاکہ دیگر لوگوں خصوصانوجوانوں کو اس کی تحریک ملے۔
کالم
سیدبابرعلی شاہ۔ سماجی خدمت کی روشن مثال
- by web desk
- اکتوبر 18, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 63 Views
- 1 مہینہ ago