جب سیلاب آیا تو بستیاں بہہ گئیں۔ عورتیں کھلے آسمان تلے بیٹھی رہیں۔ بچے بلکتے رہے۔ بزرگ بیماریوں کے ہاتھوں تڑپتے رہے۔ اور حکمران؟ وہ جلسوں، بیرونی دوروں اور اقتدار کے کھیل میں مصروف تھے۔ بھارت نے پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ پانی چھوڑا جا رہا ہے، مگر ریاستی ادارے حرکت میں نہ آئے۔ پانی پنجاب میں داخل ہوا تو وزیر اعلیٰ جاپان میں تھیں میں تھیں ایک بڑے وفد کے ساتھ۔ اور جب یہ سیلاب جب سندھ پہنچنے لگا تو صدر مملکت اور بلاول چین میں تھے۔ وزیر اعظم بھی اس دوران بیرونِ ملک کے دوروں میں مصعوف اور ن لیگ کے صدر میاں نواز شریف لندن میں علاج معالجے میں مصروف ہیں۔ یوں سمجھے کہ عوام ڈوبتے رہے، حکمران غائب رہے۔یہی ہمارا المیہ ہے۔ جب بھی قوم کو قیادت کی ضرورت پڑی، وہ لاپتہ ہوئی۔ ریاستی مشینری صرف بیانات اور دعوؤں پر چلتی رہی۔ اصل کام مخیر حضرات اور نوجوانوں نے کیا۔ کسی نے خیمے پہنچائے، کسی نے کھانا دیا، کسی نے کشتیاں چلائیں۔ لیکن یہ سب سمندر میں قطرے سے زیادہ نہ تھا، البتہ ٹک ٹاک اور ذاتی تشہیر کو خوب فروغ ملا۔اصل مسئلہ سوچ کا ہے۔ ہم نے نعروں کو حقیقت سمجھ لیا ہے۔ ”اسلامی بینکاری”، ”شریعت بل”، ”اسلامی ممالک کی تنظیم”، ”آزادی اظہار” اور ”جمہوریت” جیسے الفاظ بار بار سنائے گئے۔ مگر نتیجہ؟ عوام کی حالت نہیں بدلی۔ انصاف نہ ملا۔ روزگار نہ آیا۔ تحفظ نہ ملا۔ تو پھر یہ سب اصطلاحات محض کھوکھلے نعرے ہیں۔اسلام ہمیں نتائج سکھاتا ہے، نعرے نہیں۔ حضرت عمر کے دور کے قحط میں آپ نے حدود کے نفاذ کو روک دیا تاکہ کوئی بھوک سے مجبور ہوکر جرم نہ کرے۔ یہ تھی شریعت کی اصل روح: عدل، رحم اور انسان کی جان بچانا۔ مگر ہم نے شریعت کو ڈھانچوں میں قید کر دیا اور روح کو بھلا دیا۔ سیلاب کے دنوں میں ایک ماں نے اپنے بچے کی لاش گود میں اٹھا رکھی تھی۔ اس کی چیخیں آسمان تک جا رہی تھیں مگر کسی حکمران کے کانوں تک نہ پہنچیں۔ ان کے نزدیک یہ محض اعداد و شمار تھے۔ حقیقت میں یہ انسان تھے، زندگیاں تھیں۔ نظام تب معتبر ہوگا جب یہ جان بچانے، ریلیف دینے اور انصاف مہیا کرنے کے قابل ہو۔اب سوال قوم کے سامنے ہے۔ کب تک کھوکھلے نعروں کے پیچھے بھاگنا ہے؟ کب تک وعدوں پر یقین رکھنا ہے؟ کب تک حکمران اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے اور عوام پانی میں ڈوبتے رہیں گے؟ فیصلہ اب عوام کو کرنا ہے۔ ڈھانچوں کو بھول کر نتائج کو معیار بنانا ہوگا۔ اگر کوئی نظام، چاہے وہ ”اسلامی” کہلائے یا ”جمہوری”، عوام کو تحفظ اور انصاف نہیں دیتا تو وہ نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ شریعت کی اصل روح انسان کی فلاح ہے، نہ کہ حکمرانوں کا کھیل۔اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ سنبھالا تو ہر سیلاب کے بعد یہی لاشیں، یہی سسکیاں اور یہی بے حسی ہمارا مقدر رہے گی۔ تاریخ پھر یہی لکھے گی: عوام پانی میں ڈوب رہے تھے، حکمران اقتدار کی موجوں میں تیر رہے تھے۔