کالم

سیلاب آزمائشِ وقت اور ریاست کی ذمہ داری

پاکستان اس وقت ایک بار پھر قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ شدید بارشوں، گلیشیئرز کے پگھلاؤ اور بھارتی ابی جارحیت کے نتیجہ میں آنے والے سیلاب نے خیبر پختونخوا کی وادیوں سے لے کر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، پنجاب اور اب سندھ کے نشیبی علاقوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی، تباہ حال بستیاں، کھنڈر بنے مکانات، لٹے پٹے چہرے، بھوکے پیاسے بچے، اور امداد کی منتظر نگاہیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب سیلاب نے پاکستان کو جھنجھوڑا ہو۔ 2010، 2022 کے ہولناک مناظر ابھی ہمارے اجتماعی شعور میں تازہ ہیں اور اب 2025 میں ایک اور سانحہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ان سانحات سے کیا سیکھا؟
ہم ہر بار سیلاب کے بعد شور مچاتے ہیں، میڈیا پر ٹاک شوز ہوتے ہیں، سرکاری بیانات جاری کیے جاتے ہیں، امدادی ادارے متحرک نظر آتے ہیں، لیکن ہر بار نقصانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، مویشی بہہ جاتے ہیں، کھڑی فصلیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں، انفراسٹرکچر تباہ ہو جاتا ہے، اور معیشت کو اربوں ڈالر کا دھچکا لگتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ قدرتی آفات انسان کے اختیار میں نہیں، مگر ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنا بہرحال انسانی اختیار میں ہے۔ بدقسمتی سے ہم بطور ریاست اور قوم، اس بنیادی ذمہ داری سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے دریاں میں اچانک پانی چھوڑنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہمیں بھارتی آبی جارحیت سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، مگر افسوس ہم اس حوالے سے پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کر پاتے نہ ہی وارننگ سسٹم کو بروقت برو کار لاتے ہیں حتی کہ حفاظتی بندوں کی بروقت مرمت پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ۔سیلاب سے ہونے والی بڑے پیمانے کی تباہی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دریا کے کنارے غیر قانونی رہائشی بستیاں اور کالونیاں قائم ہو چکی ہیں۔ قدرتی نالے اور پانی کی گزرگاہیں تنگ کر دی گئی ہیں۔ ان حالات میں حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ امیر اور غریب کیلئے قانون کی عملداری یکساں بنائے۔ اگر ریاست سنجیدگی سے اپنی عمل داری قائم کرے، دریا کے اطراف موجود تمام غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کرے، قدرتی گزرگاہیں بحال کرے، اور جنگلات کی کٹائی روکے تو نقصانات کی شدت کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(NDMA) اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (PDMA) کام کر رہی ہیں۔ ریسکیو 1122، محکمہ موسمیات، اور دیگر ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ سیلاب کے دوران حکومت اور متعلقہ اداروں نے فوری ریلیف کے لییایسے اقدامات کیے جو متاثرہ عوام کے لیے سہارا بنے۔ فوج، پولیس اور ریسکیو اداروں نے لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا، طبی امداد، راشن اور عارضی رہائش کی سہولتیں فراہم کی گئیں، جبکہ سڑکوں، پلوں اور بجلی کی بحالی پر بھی تیزی سے کام ہوا۔ نیشنل اور صوبائی اداروں نے بروقت وارننگز جاری کیں۔
وفاقی حکومت نے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے 20 لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے، جبکہ گھروں، فصلوں اور مویشیوں کے نقصان کے ازالے کے لیے بھی مالی معاونت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ تاہم یہ بھی واضح رہے کہ وقتی ریلیف کسی بحران کا مستقل حل نہیں ہوتا۔ ہمیں ان تدابیر کو ایک جامع اور طویل المدت حکمتِ عملی کے ساتھ جوڑنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آنے والے سالوں میں ہم اسی مصیبت کا بار بار شکار نہ ہوں اداروں کی کارکردگی اکثر صرف ردِعمل تک محدود رہتی ہے۔ پیشگی منصوبہ بندی، مستقل حکمتِ عملی، اور ان پر عمل درآمد کا فقدان ہمیں ہر سال اسی مقام پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں سے ہم چلے تھے۔حکومت نے موجودہ سیلاب کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا ہے، مگر جب تک شفافیت، منصوبہ بندی اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوگی، یہ تمام وسائل ضائع ہو جائیں گے۔ اب وقت ہے کہ ہم ریلیف سے آگے بڑھ کر "ریسک ریڈکشن” یعنی خطرات میں کمی کی پالیسی پر سنجیدگی سے عمل کریں۔اب وقت ہے کہ ہم عملی اقدامات کرتے ہوئے پیشگی وارننگ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کریں دریاں کے اطراف سے غیر قانونی آبادیوں کا مکمل خاتمہ اور ریسک ریڈکشن کی پالیسی کو اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی سطح پر متعارف کرایں۔ سیلاب ایک آزمائش ضرور ہے، لیکن اس سے حاصل ہونے والا سبق کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے، اب بھی عملی اقدامات نہ کیے، تو آئندہ سیلاب صرف فصلیں نہیں بہائے گا، یہ ہماری اجتماعی بے حسی، نااہلی اور نالائقی کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ وقت ہے کہ ہم خود انحصاری، پیشگی تیاری، اور قانون کی عملداری کو اپنا کر ایک محفوظ پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہم سے یہ ضرور پوچھیں گی کہ "جب سب کچھ نظر آ رہا تھا، تو تم نے کچھ کیوں نہ کیا؟”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے