حالیہ سیلاب سے بھارتی ریاست پنجاب کے ایک ہزار دیہات مہلک سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور ہزاروں افراد کو حکومت کے قائم کردہ ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ شمال مغربی ریاست میں گزشتہ ماہ آنے والے سیلاب سے کم از کم 29 افراد ہلاک ہوئے اور ڈھائی لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں، ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اسے دہائیوں کے بدترین سیلابی حادثات میں سے ایک قرار دیا ہے۔یہ خطہ عموماً بھارت کی ‘اناج کی ٹوکری’ کہلاتا ہے، لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ 940 مربع کلومیٹر (360 مربع میل) سے زائد زرعی زمین زیرِ آب آ گئی ہے، جس سے فصلوں کو تباہ کن نقصان پہنچا ہے۔ انہیں مویشیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جس کی مکمل صورتحال کا اندازہ تب ہی ہوگا جب پانی اترے گا۔اس خطے کی ندیاں پاکستان میں بھی داخل ہوتی ہیں، جہاں سیلابی پانی نے بھی بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جون سے ستمبر کے مون سون کے موسم میں برصغیر میں اکثر سیلاب اور لینڈ سلائیڈز آتے ہیں، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی اور غیر منصوبہ بند ترقی ان کے وقوع، شدت اور اثرات میں اضافہ کر رہی ہے۔بھارت کے محکمہ موسمیات کے مطابق شمال مغربی بھارت میں جون سے ستمبر کے دوران بارش اوسطاً ایک تہائی سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔دارالحکومت دہلی میں مسلسل بارشوں سے دریائے جمنا کی سطح انتہائی بلند ہوچکی ہے، جو خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہا تھا، جس سے کئی علاقے زیر آب آ گئے اور کئی گھنٹے تک طویل ٹریفک جام رہا۔گزشتہ ماہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ریکارڈ توڑ بارشوں سے پیدا ہونے والے مہلک سیلاب میں بھی درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔بھارت کی جانب سے دریائوں میں پانی چھوڑنے کے بعد ہمارے پنجاب کے دریائوں میں سیلابی صورتحال سنگین رخ اختیار کر گئی اور دریائے ستلج، راوی اور چناب میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے جبکہ کرتارپور کے قریب دریائے راوی کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے پانی گردوارے میں داخل ہوگیا۔ دریائے راوی میں شدید سیلابی صورتحال کے باعث پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع تاریخی اہمیت کے حامل گرودوارہ کرتارپور صاحب میں سیلابی پانی داخل ہو گیا۔ کرتارپور کے قریب دریائے راوی کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے پانی گردوارے میں داخل ہوگیا،پانی کے تیز بہائو کے باعث نارووال شکرگڑھ روڈ ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔ دریائے راوی کا سیلابی پانی نارووال شکرگڑھ روڈ عبور کر گیا، کرتار پور بستان بھجنہ تک مین روڈ پر آگیا جس کے بعد نارووال شکرگڑھ روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا۔شکرگڑھ، کرتار
پور دربار صاحب میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہوگیا جس کے باعث یاتریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا، گردوارے میں پانی داخل ہونے کے باعث یاتریوں کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب کہ کرتار پور گردوارے کے احاطے میں 4.4فٹ پانی جمع تھا اور متعلقہ اداروں کی ریسکیو ٹیمیں آپریشن میں مصروف ہیں۔ کرتار پور میں سیلاب کی وجہ سے دو سو سے تین سو لوگ پھنسے ہوئے تھے، پاک فوج نے ان لوگوں کی ریسکیو اور ریلیف کا کام شروع کر دیا ہے۔مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر پاک فوج پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں جاری پاک فوج کے ریلیف اور ریسکیو آپریشن پر مقامی سکھ برادری نے مسلح افواج اور ان کی قیادت کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔پنجاب کے دیگر اضلاع کی طرح سیالکوٹ بھی حالیہ تباہ کن سیلاب سے شدید متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں ڈسکہ میں سکھ برادری کے درجنوں افراد پانی میں محصور ہوگئے تھے۔پاک فوج کے جوانوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے متاثرہ سکھ خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ اب تک 96 افراد کو ریلیف آپریشن کے ذریعے ریسکیو کیا جا چکا ہے۔محفوظ مقام پر پہنچنے کے بعد سکھ شہریوں نے پاک فوج کی بروقت مدد کو سراہا اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشکل وقت میں ہمیشہ پاک فوج نے ہمارا ساتھ دیا ہے، جس کے ہم بے حد ممنون ہیں۔ ہماری مقدس کتاب جو بابا گورونانک کے مقام پر موجود ہے، اس کی حفاظت کے لیے ہیلی کاپٹر تک بھیجا گیا، اور خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہی۔
کالم
سیلاب سے بھارتی پنجاب متاثر
- by web desk
- ستمبر 13, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 9 Views
- 1 گھنٹہ ago