کالم

سیلاب کے بعد مہنگائی کا طوفان

بھارت کی طرف سے کی گئی آبی دہشت گردی کے بعد پنجاب اور سندھ میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں ۔ لاکھوں ٹن گندم کے ذخائر برباد ہو گئے اور زرعی اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ دریائے ستلج اور راوی کا پانی سندھ طاس معاہدہ کے مطابق بھارتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور عرصہ دراز سے ان دریاں میں کبھی پانی نہ آیا ہے جس کی وجہ سے ان دریاں کی پانی کی گزر گاہوں میں آبادی بن چکی ہے اور کسان یہاں پر فصلیں اگاتے ہیں۔ بھارت نے بارشوں کے بعد پانی روک رکھا تھا اور بہت بڑی تعداد میں ان دریاں میں پانی چھوڑ دیا گیا جس عوام کو نقل مکانی کرنا پڑی ۔پانی نے تباہی مچادی ۔ بہت بڑی تعداد میں زیادہ جانور بھی سیلابی پانی میں بہہ گئے اور کافی جانی نقصان ہوا ۔ بھارت تھوڑا تھوڑا کر کے پانی چھوڑ سکتا تھا لیکن یکدم پانی چھوڑ کر آبی دھشت گردی کا مرتکب ہوا پاکستان نے اس دھشت گردی کے خلاف آواز احتجاج بھی بلند نہ کی ۔ پنجاب میں ابھی تک مختلف علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے جبکہ اب سندھ کے علاقہ میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ سیلاب کے بعد پنجاب بھر میں زرعی اجناس کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں ۔ حکومتی دعوی ہے کہ ملک میں مہنگائی صرف دو فی صد ہے لیکن آپ مارکیٹ جائیں تو قیمتیں سن کر ہوش اڑ جاتے ہیں ۔ آج اتوار بازار جانے کا موقع ملا ۔ زندگی میں اتنی مہنگی سبزی اور فروٹ کی قیمت نہ دیکھی تھی پورے بازار میں ٹماٹر میسر نہ تھے۔ لسٹ دیکھی تو پتہ چلا کہ ٹماٹر کی قیمت ایک سو چالیس روپے فی کلو گرام مقرر ہے ۔ ٹماٹر خریدنے کیلئے مارکیٹ جانا پڑا یہاں پر ٹماٹر کی قیمت تین سو اسی روپے فی کلو گرام تھی۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ لسٹ حقیقت پر مبنی نہ ہے ۔ اور مارکیٹ کمیٹی کے سائینس دان اپنی مرضی سے قیمت لگاتے ہیں جو منڈی میں بولی کی ہیں ۔فروٹ اور ٹماٹر افغانستان سے آتا ہے لیکن جب سے مہاجرین کو واپس بھیجنا شروع کیا ہے انہوں نے بھی پاکستان کے لئے سپلائی روک دی ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ مارکیٹ کمیٹی کے دفتر واقع آئی الیون فور کے ارد گرد لگائی گئی ریڑھیوں پر بھی لسٹ کے مطابق قیمت نہ ہے۔ سبزی اور فروٹ ہول سیل مارکیٹ میں دو سو سے زائد ریڑھیاں لگوائی جاتی ہیں جو عام مارکیٹ میں قیمت سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اگر ہول سیل مارکیٹ کو کنٹرول نہیں کر سکتی تو تیتیسں مجسٹریٹ کس کام کے ہیں جو روزانہ لاکھوں روپے جرمانے وصول کرتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے جرمانے کی رسید مانگ لے تو اسے اڈیالہ جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ یہی حالات چینی کی پرچون قیمت کے ساتھ ہیں۔ مارکیٹ کمیٹی کے چیر مین ساجد عباسی صاحب ایک ایماندار سیاسی ورکر ہیں لیکن ان کا عملہ سر عام ہھتہ خوری میں ملوث ہے یہی وجہ ہے کہ سورس پر قیمت کنٹرول نہ ہو سکنے سے شہر بھر میں مہنگائی کا طوفان ہے ریٹ لسٹ کی قیمت دس روپے مقرر ہے لیکن ہر دکاندار سے پچاس روپے وصول کی جاتی ہے جو کہ کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ ریٹ لسٹ حقیقی بنوائیں اور مارکیٹوں میں مجسٹریٹ بھیجنے کی بجائے منڈی میں ڈیوٹی لگائیں ۔ لگائی گئی ریڑھیاں ختم کریں اور منی ہول سیل مارکیٹ بنائی جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے