کالم

سیلولر کمپنیوں عدم تعاون

ایک مقامی اخبار میں بظاہر ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی ہے ،جس کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی سیلولر کمپنیوں کی جانب سے پولیس کو موبائل فون ڈیٹا کی فراہمی بند کر دی ہے ،اس حوالے سے سیلولر کمپنیوں کی جانب سے کوئی وضاحت تو سامنے نہیں آئی تاہم یہ تشویش والی بات ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس طرح راولپنڈی سمیت پنجاب بھر میں تفتیش کا عمل شدید متاثر ہو رہا ہے،خبر کے مطابق تقریبا ایک لاکھ سے زائد مقدمات کی تفتیش رک گئی ہے ۔اور پولیس کا شعبہ آئی ٹی غیر فعال ہو گیا ہے۔اس امر پہ یقینی طور پر حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کمپنیاں ایسا کیوں کر رہی ہیں ،آج دنیا بھر میں جرائم کی بیخ کنی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال لازم وملزوم ہو گیا ہے اور یقینا سیکورٹی ادارے اور پولیس اس سلسلے میں سیلولر کمپنیوں سے تعاون حاصل کرتے ہوں گے۔
ایسی صورت حال میں روزانہ درج ہونے والے مقدمات کی شہادتیں اور تفتیش بھی سوالیہ نشان بن گئی ہوں گی ۔ خبر کے مطابق سیلولر کمپنیوں نے 7 جون سے پولیس کو موبائل فون سے متعلق ڈیٹا کی فراہمی بند کر دی ہے ۔ پولیس مقدمات کی تفتیش کے لیے سی ڈی آر یعنی کال ڈیٹاریکارڈ ، موبائل فون لوکیشن ، آئی ایم ای آئی ہسٹری ، گیٹ وے ڈیٹا اور جیو فینسنگ سے متعلق کوئی بھی سہولت اب پنجاب پولیس کو میسر نہیں رہی ہیں، جس سے تفتیش کاعملا ً رک گیا ہو گا
اغوا برائے تاوان ، خواتین اور بچوں کا اغوا، ڈکیتی وچوری میں موبائل فون کی ٹریسنگ ، قتل اقدام قتل ، گمشدگی ، لاپتہ افراد اوردہشتگردی کے مقدمات سمیت ہر قسم کی تفتیش کا دارومدار اب موبائل فونز اور اس سے منسلک مختلف قسم کے ڈیٹا بیس سے جڑا ہے لیکن 7 جون سے راولپنڈی سمیت پنجاب بھر کے تمام اضلاع کی پولیس کو اس ڈیٹا کی فراہمی بند ہے ۔ تفتیش سے منسلک ماہرین اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس دور جدید میں تفتیش کا 70 فیصد انحصار ٹیکنالوجی پر ہے ، جو موبائل سے منسلک ہے ۔کچھ عرصہ قبل جب دہشت گردی اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس کوسیلولر کمپنیوں کے ڈیٹا رکارڈ تک رسائی کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک باضابطہ طریقہ کر طے کرنے بعد انہیں یہ رسائی دے دی گئی۔جس کے تحت اس وقت غیر قانونی سم کے استعمال کو روکنے کے لئے وزارت داخلہ اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک نئے لائحہ عمل کی منظوری دی گئی۔
جس کے ذریعے ایف آئی اے اور رینجرز کے بعد پولیس کو بھی سیلولر کمپنیوں کے کال ڈیٹا رکارڈ تک رسائی دے دی گئی ۔ جس کے بعد آئی جی ، ڈی آئی جی اور اسپشل برانچ کے نامزد پولیس افسران کسی بھی شخص کا کال ڈیٹا رکارڈ حاصل کرسکتے تھے۔ سی ڈی آرز کا ریکارڈ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحقیقات میں اہم رہنمائی فراہم کرتا ہے، کیونکہ اس میں مطلوبہ شخص کے موبائل فون نمبر پر موصول ہونے والی کالز کے نمبرز اور ڈائیل کی جانے والی تمام فون کالزنمبرز کا ریکارڈ ہوتا ہے جس میں نہ صرف اس مطلوبہ شخص کی لوکیشن ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ جو افراد اس کو فون کرتے ہیں یا وہ جن کو فون کرتا ہے ان کی لوکیشن بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔
اگر دن بھر میں اس شخص کی لوکیشن تبدیل ہوتی رہے تو وہ بھی سی ڈی آر میں ظاہر ہوجاتی ہے۔ سی ڈی آر ایک انتہائی حساس نوعیت کے مواد پر مشتمل ڈیٹا ہوتا ہے جس کو پرائیویٹ افراد کے ہاتھ لگنے نہیں دیا جاتا کہ اس کے نتیجے میں موبائل فون صارفین کی نجی معلومات کو غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے علاوہ نجی کمپنیوں کے اپنے قواعد اور وفاقی اداروں کے قوانین کے مطابق یہ ریکارڈ صرف قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں کو ہی طلب کرنے پر موبائل کمپنیاں فراہم کرنے کی مجاز ہوتی ہیں۔پولیس کے ساتھ سیلولر کمپنیوں کا یہ عدم تعاون سمجھ سے بالا تر ہے،اس معاملے کو از سرے نو دیکھنے کی ضرورت ہے
خود پولیس کی ہائر انتظامیہ کو بھی اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ کہیں کی طرف سے اس کا استعمال غلط تو نہین ہوا کہ جس پر کمپنیوں نے دست تعاون کھینچ لیا ہے، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم کی تیز تر بیخ کنی کے لئے اس سہولت تک رسائی قواعد و ضوابط کے تحت دی جانی چاہئے کہ تاکہ پولیس اپنا کام احس طریقے سے نبھا سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلولر ٹیکنالوجی کی وجہ سے مجرم تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے