کالم

سیکولر اور سوشلسٹ جمہوریہ پر حملہ

جواہر لعل نہرو کی سیکولر اور سوشلسٹ جمہوریہ کو اکیسویں صدی میں مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھانے کا عمل نریندر مودی کے ہاتھوں مکمل ہونے کے قریب ہے ۔ 1992 میں قدیم بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے منہدم کرنے کی کوشش اور بعد ازاں ہندوستان کی سپریم کورٹ کے چند متنازعہ فیصلوں میں سے ایک فیصلے ،یعنی یہ کہ اسی مسجد کی جگہ پر رام جی کا جنم ہوا تھا ،کے بعد وہاں مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کا کام جاری تھا ، اب الیکشنز کو قریب آتے دیکھ کر ، اسی زیر تعمیر مندر میں ہندوستان کے مذہبی انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے "راشٹریہ سویم سیوک” کے سربراہ موہن بھاگوت اور صوبہ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو ساتھ ملا کر رام مندر کا افتتاح کر دیا ہے ،اور اس طرح سے گویا 1990 کے اواخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے چالاک رہنما لال کرشن اڈوانی کی طرف سے سوم ناتھ مندرگجرات سے شروع ہونے والی اس رتھ یاترا کا مقصد بھی پورا کر دیا ہے ،جس کا ہدف بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایڈوانی کی اسی رتھ یاترا کے نتیجے میں ہندو انتہا پسندوں نے یاترا کے بعد صرف دو سال کے اندر اترپردیش کے شہر ایودھیا کی ایک قدیم مسجد یعنی بابری مسجد کو منہدم کرنے کے لیے حملہ کر دیا تھا۔یہ واقعہ ہندوستانی سیکولرزم کی تنسیخ کی طرف ایک قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ایڈوانی کی رتھ یاترا اور ہندو انتہا پسندی کے فروغ کی مہم کا اصل مدعا کانگریس کے سیکولر اور سوشلسٹ ہندوستان کے عوام کی توجہ اپنے حقوق سے ہٹا کر مذہبی انتہا پسندانہ نعروں میں الجھانا اور متبادل انتہا پسند سیاست کے لیے جگہ بنانا تھا۔ایسا ہی ہوا ،اور جس کے نتیجے میں نریندر مودی مسلسل وزیراعظم رہنے کی ایک دہائی مکمل کرنے کو ہے ۔ہندوستان کی مہذب اپوزیشن جماعتوں نے اس نام نہاد پران پرتشٹھا کی تقریب کا مکمل مقاطعہ کر کے امید کی ایک کرن کو روشن رکھا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں رام کی مورتی میں روح پھونکنے کے اس علامتی عمل کو ہندوستان کی مخلوط تہذیب، رنگا رنگ ثقافت اور سیکولر سیاست کی روح قبض کرنے کی ایک ناکام کوشش بھی خیال کیا سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود میرا تاثر ہے کہ ہندوستانی ذہن خود کو انتہا پسند ہندوں کی گرفت سے آزاد کرا کر رہے گا۔ ہندوستان آج تعلیم اور معیشت کے میدان میں اقوام عالم میں جو مقام حاصل کیے بیٹھا ہے ،اس کا تعلق ریاست کے سیکولر چہرے اور اعلی تعلیم میں نوسربازی سے آزاد ماحول اور ترجیحات کے ساتھ ہے ۔ یہ تاثر درست معلوم نہیں ہوتا کہ نریندر مودی کے اس عمل نے ہندوتوا کی نام پر ہندو یونٹی کو قائم اور مستحکم کر دیا ہے ۔بھارتی میڈیا میں ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں اراکین اسمبلی کو دیئےجانے والے آئین کے تمہیدی کتابچےمیں سے ریاست کے نام کے ساتھ سیکولراورسوشلسٹ کے الفاظ حذف کئے گئے ہیں اور اس پر سب سے زیادہ احتجاج اور اظہار تشویش ہندوستان کی بانی جماعت کانگریس نے کیا ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر القومی ملک کی یونٹی کا تعلق کسی مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔اس خطے کی تاریخ ، تربیت اور ثقافت سیکولر مزاج اور رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کی اس حرکت یا تجاوز سے ہندوستان کو ایک ہندو ریاست کی شناخت دینے کے ارادے کھل کر سامنے آ گئے ہیں ۔ہندوستانی ریاست اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا تاثر یہ ہے کہ ایسی تمام تر حرکتیں ہندو ووٹرز کو دھرم کے نام پر ورغلانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہیں۔نریندر مودی کی ایسی کوششیں آگے چل کر ہندوستان کےلئے کس طرح اور کہاں کہاں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں،اس پر دانشور طبقے کو بات کرنی چاہیئے۔لیکن فضا ایسی بنا دی گئی ہے کہ ابھی کوئی بھی لب کشائی پر خود کو آمادہ نہیں کر سکا ہے ،وجہ وہی جذباتی مذہبیت کی پیدا کردہ متشدد انتہا پسندی کا خوف۔ نریندر مودی نے اکیسویں صدی میں نہرو کے ہندوستان کو انتہا پسندوں کا ہندوستان بنا کر ہندوو¿ں اور ہندوستان کی کوئی خدمت نہیں کی ،بلکہ ہندوستان میں جہالت کی کاشتکاری کی ہے۔آئیے میں آپ کو یاد دلاوں کہ گزشتہ صدی میں منیر انکوائری کمیشن کے روبرو مولانا مودودی نے کیا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ مولانا ابوالاعلی مودودی سے کمیشن نے سوال پوچھا تھا کہ اگر ہم پاکستان میں اس شکل کی اسلامی حکومت قائم کر لیں تو کیا آپ ہندوو¿ں کو اجازت دینگے کہ وہ اپنے دستور کی بنیاد اپنے مذہب پر رکھیں؟اس سوال پر مولانا مودودی کا جواب ملاحظہ فرمائیں:یقینا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے ۔ ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیاجائے اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعا ًنہ دیے جائیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی ہندوستان میں صورت حالات یہی ہے۔منیر کمیشن نے اسی طرح کا سوال سید عطا اللہ شاہ بخاری سے بھی کیا تھا۔کمیشن نے ان سے پوچھا تھاکہ؛ہندوستان میں کتنے کروڑ مسلمان آباد ہیں۔انہوں نے جواب دیا تھا کہ چار کروڑ ۔ کمیشن نے سوال کیا تو تھا کہ ؛کیا آپ کو اس امر پر اعتراض ہو گا کہ ان پر منو کے قوانین عائد کیے جائیں جن کے ماتحت انہیں کوئی شہری حق حاصل نہ ہوگا ۔ اور ان سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے گا ؟”تو سیدعطا اللہ شاہ بخاری نے جواب دیا تھا کہ میں پاکستان میں ہوں اور ان کو مشورہ نہیں دے سکتا۔ایسا بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ نریندر مودی اکیسویں صدی میں جواہر لعل نہرو کے سیکولر اور سوشلسٹ جمہوری ہندوستان کو مولانا مودودی کے تصورات کے مطابق تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے