کالم

شائنگ انڈیا، ایک سراب

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں مقامی تاجروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی مبصرین نے معاشی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں بھارت کے کھوکھلے دعوﺅں کو بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے محض ایک پروپیگنڈاقراردیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ بھارت مقبوضہ علاقے میں امن اور ترقی ظاہرکرنے کے لیے سرگرمی سے رپورٹیں جاری کر رہا ہے اور میڈیا مہم چلا رہا ہے۔ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ترقی کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصدعلاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرنا ہے۔تاہم مقامی کاروباری مالکان اور کارکنوں کا اصرار ہے کہ یہ دعوے زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔سرینگر کے ایک تاجر نے بتایا کہ زمینی صورت حال ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے۔ دکانیں بند ہو رہی ہیں، کاروبار مشکلات سے دوچار ہے اور بے روزگاری اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ کوئی حقیقی ترقی نہیں ہے، صرف جبر ہے۔سول سوسائٹی کے ارکان نے کہا کہ بھارتی حکومت علاقے میں اقتصادی ترقی کی خوشنما تصویر پیش کرکے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک کارکن نے کہاکہ نام نہاد ترقی کا بیانیہ دھوکہ دہی کا ایک اور طریقہ ہے۔ بھارت جھوٹی ترقی دکھا کر اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت بدستور سنگین ہے۔انہوں نے علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کےلئے ایک وسیع حکمت عملی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایک تاجر نے بتایاکہ بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیں جبکہ کشمیری کاروبار متعدد رکاوٹوں اور وسائل تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 5اگست 2019کو دفعہ370کی منسوخی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ تجزیہ کاروںنے سوال اٹھایا کہ ایک ایسے علاقے میں امن اور ترقی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے جس کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جماﺅ والے علاقے میں تبدیل کیاگیا ہو۔پچھلے کچھ برس سے بھارتی معیشت کی معاشی ترقی کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں بالعموم اور بھارتی میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور دکھایا جارہا ہے۔جس میں بھارت کا روشن چہرہ ہی دکھایا جارہا ہے۔”شائننگ انڈیا“ ہو یا”من موہن سنگھ کی معاشی اصلاحات“ یا پھر موجودہ ”مودی حکومت“ کی معاشی کامیابیوں کے دعوے ان سب کے مطابق بھارتی معیشت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے ۔ بھارتی حکومت کے دعووں کے مطابق 2014 میں بھارتی معیشت کی ترقی کی رفتار 6.9 فی صد تھی جوکہ 2015 میں 7.3 فیصد تک پہنچ گئی ،2016 میں ترقی کی یہ رفتار 8 فی صد تک پہنچ گئی ،ایشین بنک کی رپورٹ کے مطابق2017 میں ترقی کی یہ رفتار7 فی صد سے لے کر 7.4 فیصد ہونے کا امکان ہے ۔ فی کس آمدنی جو کہ2014 میں 88,533 بھارتی روپے تھی 2015-2016 میں یہ آمدن بڑھ کر 93,293 ہوگئی۔ 2016-17میں یہ فی کس آمدن بڑھ کر 103,077 روپے ہوگئی۔معاشی ترقی کے یہ دعویٰ کس قدر حقیقت پر مبنی ہیں اس کے بارے میں بھارتی حکومت ہی بہتر بتا سکتی ہے البتہ یوسفی نے کہیں لکھا تھا کہ جھوٹ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جھوٹ دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد وشمار۔حالیہ دنوں میں ایک سروے شائع ہوا ہے اس سروے کے مطابق ”جمہوریہ بھارت“ میں غریب اور بھوکے بچوں کی تعداد ”آمریت زدہ شمالی کوریا“ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سروے کےلئے 119 ممالک کا انتخاب کیا گیا۔ اس سروے کے مطابق شمالی کوریا کی درجہ بندی بھارت سے سات درجے بہتر تھی جب کہ بھارت اس فہرست کے آخر میں موجود افغانستان سے سات درجے بہتر تھا۔اس سروے کو تیار کرنے والے ادارے نے اس سروے کو تیار کرتے ہوئے تین عوامل بچوں کے لئے خوراک کی عدم دستیابی ، چھوٹے بچوں میں شرح اموات اور ان کے لئے صحت کے لئے دستیاب سہولتوں کو مدنظر رکھا۔اس سروے کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ غریب اور بھوکے بھارتی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ بھارتی معیشت کی ترقی کے یہ دعوے ان بچوں کو چھو کر بھی نہیں گزرے۔مودی کے ”خوش حال بھارت“ میں بھوکے بچوں کی اتنی بڑی تعداد شاید کچھ لوگوں کے لئے اچنبھے کا باعث ہو کیونکہ بین القوامی سطح پر تو بھارتی خوش حالی کا بھونپو بجایا جا رہا ہے اور اسے سرمایہ کاروں کے لئے آئیڈٰیل ملک کہا جارہا ہے لیکن زمینی حقائق بہرطور بھارتی معیشت کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول رہے ہیں۔اگر اس سارے معاملے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بھوکے اور غریب بھارتی بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مسل? خاصا پرانا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس میں کچھ لوگ ملکی وسائل کے بڑے حصے پر قابض ہیں اور آبادی کی اکثریت کے لئے کچھ بھی نہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق آج کے بھارت میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ”تقسیم ہند“ سے کہیں زیادہ ہے۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھوکے اور غریب بھارتی بچوں کی یہ بڑھتی ہوئی تعداد پالیسی ساز وں کے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پالیسی سازی اور حکمرانی امراءکے ہاتھ ہے جن کے لئے ”مریخ پر راکٹ“ بھیجنا جیسے نمائشی کام غربت ختم یاکم کرنے سے زیادہ اہم ہیں۔ ان کےلئے بڑھتی ہوئی غربت، بچوں کے لئے صحت اور تعلیمی سہولتوں کی کمیابی سے زیادہ جی فور موبائل کا حصول اور تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنا زیادہ اہم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے