کالم

شافعی مسلک کے بانی محمد بن ادریس الشافعیؒ

riaz chu

اسلام کی تاریخ میں آئمہ اربعہ کا ظہور ایک معجزہ تھا۔ ان میں امام ثالث حضرت امام شافعیؒ کا امتیاز یہ ہے کہ وہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے بعدآئے اوردونوں کے مدرسہائے فکراورمناہج فقہ کی خوبیوں کے جامع ہوئے۔انہوں نے دونوں ہی مکاتب فکرسے خوشہ چینی کی۔امام شافعیؒ کے فقہی مسلک کو مذہب شافعی کہتے ہیں۔ آپ کا نام محمد بن ادریس الشافعیؒ ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا سال وفات اور امام شافعی ؒ کا سال ولادت ایک ہے یعنی آپ 150ھ میں فلسطین کے ایک گاو¿ں غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زمانہ بڑی تنگدستی میں گزرا، آپ کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ 7 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، 15 برس کی عمر میں فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی تھی۔ آپ حضرت امام اعظم ؒکے مزار مبارک پر مسائل حل کرنے کےلئے اور برکت حاصل کرنے کےلئے حاضری دیا کرتے تھے۔ ان کے استادمسلم بن خالدزنجی نے ان کی قابلیت کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا: اے ابوعبداللہ، اب تم فتوی دو، کیونکہ فتوی دینے کے اہل ہوچکے ہو “۔ مگرشافعی کومزیدعلم کا شوق تھاچنانچہ انہوں نے اما م مالک ؒ کے درس حدیث اوران کی کتاب مو¿طاکا شہرہ سنا تو مدینہ کی راہ لی۔ والئی مکہ نے ان کے لیے ایک سفارشی خط امام مالکؒ کی خدمت میں لکھ دیا۔ مگرمالکؒ کی خدمت میں حاضری دینے سے پہلے ہی مکہ کے کسی عالم سے مو¿طا لے کرپوری پڑھ لی بلکہ حفظ کرلی۔ اس کے بعدمدینہ حضرت امام مالکؒ کی خدمت میں حاضرہوئے جس کا حال یوں لکھاہے : ”میں صبح سویرے امام مالک کی خدمت میں پہنچ گیااورمو¿طازبانی پڑھنی شروع کردی حالانکہ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ امام صاحب سننے لگے۔ جب مجھے خیال آیاکہ امام مالکؒ تھک گئے ہوں گے تومیں نے قرات روکنی چاہی، مگرحضرت امام کومیری قراتِ مو¿طااتنی پسندآئی تھی کہ انہوں نے فرمایا: اے نوجوان اورپڑھ،چنانچہ یوں میں نے چنددنوں میں پوری مو¿طاان کوسنائی اورختم کرلی۔“ اس کے بعدشافعی فقہ وحدیث میں امام مالک سے مستفیدہونے لگے یہاں تک کہ اصحابِ مالک میں شمارہونے لگے اوران کی وفات تک ان کے سرچشمہ علم سے سیراب ہوتے رہے۔ آپ نے اصولِ فقہ پر سب سے پہلی کتاب ”الرسالہ“ لکھی ”الام“ آپ کی دوسری اہم کتاب ہے۔ آپ نے مختلف مکاتیب کے افکار و مسائل کو اچھی طرح سمجھا اور پرکھا پھر ان میں سے جو چیز قرآن و سنت کے مطابق پائی اسے قبول کر لیا۔ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا تھا اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل بحث کرتے۔ آپ صحیح احادیث کے مل جانے سے قیاس و اجتہاد کو چھوڑ دیتے تھے۔پھریمن کے گورنرشافعیؒ کواپنے ساتھ لے گئے اور علاقہ نجران کا قاضی مقررکردیا جہاں آپ پوری جرات ،عدل وانصاف اورخوفِ خداکے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگے ،تاہم اس گورنرکے بعض عمال ومقربین کی زیادتیوں پر کھلی اورشدیدتنقیدنے اس کوآپ سے ناراض کردیا۔اس نے آپ سے یوں انتقام لیاکہ خلیفہ کی خدمت میں آپ کی شکایت لکھ بھیجی کہ یہاں کئی علوی لوگ ہیں اورایک قریشی نوجوان ان کا حمایتی ہے۔یہ لوگ خلافت پرخروج کا ارادہ رکھتے ہیں اورمیرے قابومیں نہیں آ رہے۔خلیفہ عباسی ہارون الرشیدنے ان سب لوگوں کواپنے دربار بغداد بلا بھیجا۔ امام شافعیؒ علویوں سے محبت رکھتے تھے، مگران پربغاوت کا الزام بالکل غلط تھا۔بہرحال اپنی باری آنے پرانہوں نے اپنی طلاقت لسانی اورزوربیان کے بل پر اپنے کیس کی وکالت کی اورخلیفہ کے قاضی امام محمد بن الحسن تلمیذرشیدابوحنیفہ ؒ کی سفارش پر چھوڑدیے گئے۔یہیں سے وہ امام محمدؒ کے رابطہ میں آئے اور انہوں نے امام محمدکے علم وتفقہ سے فیض اٹھایا،ان سے مذاکرے کیے اورعراقی مکتب فکراوراس کے منہج سے براہ راست واقفیت حاصل کی۔یہاں سے فارغ ہوکرشافعی مکہ گئے جہاں انہوں نے حرم مکی میں نوسال تک درس دیا۔امام احمدبن حنبل ؒ نے مکہ ہی میں ان کے آگے زانوے تلمذ تہہ کیاہے اور جب 195ھ میں شافعی دوبارہ بغدادآئے تو امام احمدؒنے ان کا بڑا اکرام کیا۔ بغداد کے اس سفرمیں انہوں نے فقہ مالک اور فقہ حنفی سے الگ اپنی فقہی رایوں کا اظہار شروع کیااوربغدادکے علماءوفقہاء سے ان کے مذاکرے ہوئے۔ بغدادمیں انہوں نے جو فتوے دیے، انہی کوفقہ شافعی میں قول قدیم کہاجاتاہے۔ مصربھی اس وقت اہل علم کا مرکزتھاجہاں امام مالک کے بہت سے تلامذہ استادکی فقہ کوعام کررہے تھے ۔ 199ھ میں شافعی مصرگئے جہاں انہوں نے اپنامذہب فقہی باقاعدہ قائم کیا۔ وہاں ان کوبہت سے تلامذہ میسرآئے۔مصرمیں انہوں نے اپنے بہت سے خیالات کی تنقیح کی اور بہت سی سابق رایوں سے رجوع کیااورنئی رائے پر فتوے دیے جن کوقول جدید کہا جاتا ہے ۔ 204ھ میں مصر میں ہی شافعی کی وفات بھی ہوئی ۔ آج بھی مصر، لبنان، شام اور فلسطین میں شافعی مسلک کے پیروکار موجود ہیں۔ آپ کے مقلد شافعی کہلاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے