کالم

شاہینوں کا نشیمن زاغوں کے حوالے

کسی زمانے میں بڑی عمر کے لوگ کم عمر جوانوں نو عمر بچوں سے نہ صرف محبت کرتے بلکہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں تعلیم اور تربیت پر بھی گہری نظر رکھتے۔ مجھے یاد ہے فجر کی اذان بلند ہوتے ہی میرے دادا کلمہ شریف بلند آواز سے پڑھتے اور پھر سب کمروں کے دروازے پر جا کر دستک دے کر کہتےاٹھو بھئی نماز کا وقت ہو گیا ہے والد اور دادا مسجد چلے جاتے اور ہمارے گھر میں دادی اور والدہ نماز کے بعد قرآن شریف پڑھتیں ہم اگرچہ بچے تھے لیکن ہمیں گھر والے ضرور بیدار کر دیتے گھر کا ماحول تہذیب اقدار اور تربیت کی مہکارلیے ہوئے تھا ، تو تڑاخ کے لہجے میں کبھی بات نہ ہوتی ہم سے جب بھی کوئی غلطی ہوتی تو ہمارے بڑے محبت بھرے لہجے میں ہمیں سمجھا دیتے تاکہ ایسی غلطی دوبارہ نہ ہو کیا مجال کہ کبھی بڑا یا بچہ گھر میں یا باہر بازاری زبان استعمال کرتا ہوآپ اور ہم کے الفاظ میں بات ہوتی گالی دینا تو بہت ہی برا سمجھا جاتا بزرگ جب باہر سے گھر میں آتے تو دروازے پر ہی کھنکار کے ذریعے اپنی آمد کی اطلاع دے دیتے دادی اور والدہ سرو ں پر دوپٹے ٹھیک کرتیںاور بزرگ گھر میں داخل ہوتے ہی السلام و علیکم کہتے میں نے اپنے گھر میں لڑائی جھگڑے یا مغلظات کہتے ہوئے کسی نہ ہی دیکھا اور نہ ہی سنا۔ رکھ رکھاو اور تہذیب ہمارے گھر کی پہچان تھی بچوں کی تربیت جب ایسے اچھے ماحول میں ہو رہی ہو تو وہ معاشرے کا ایک بہترین فرد بن کر ابھرتے ہیں ان کی گفتگو اٹھنا بیٹھنا میل ملاپ سب ایک معیار کی عکاسی کرتا ہے لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا معاشرتی زندگی گھر سکول کالجز اور یو نیورسٹیزتہذیب و تمدن کی مزید اعلی مثال بننے کے بجائے بعض معاشروں میں تنزلی کا شکار بن جاتے ہیں تربیت کا فقدان نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے یہی کچھ ہمارے معاشرے میں ہوا جب پاکستان معرض وجود میںآیا تو معاشرتی زندگی نے اک نیا رخ اختیار کیاایک تہذیب کے لوگ مختلف تہذیبوں کے رنگ میں رنگے گئے اصل ورثہ کھو بیٹھے نئے نئے امیروں نے معاشرتی تہذیب کو ادھیڑ کر رکھ دیا جھوٹ دھوکا فریب قتل غارت گری کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو معیار بھی گرتا چلا گیا جن کے پاس سایئکل تک نہیں ہوتی تھی ان کے تصرف میں بڑی بڑی گاڑیاں نظر آنے لگیں دو نمبر کاموں میں ملوث بے وقعت لوگ محل نما گھروں میں رہنے لگے جنہوں نے کبھی ایک سو روپے کی شکل نہیں دیکھی تھی وہ کروڑوں میں کھیلنے لگے نہ احتساب نہ کوئی روک ٹوک بس جس کے دل نے جو چاہا وہ اسے کسی نہ کسی طرح مل گیاجو کچھ بھی نہیں تھے وہ بہت کچھ ہو گئے اور جو بہت کچھ تھے وہ دیکھتے ہی دیکھتے وقت کی گرد تلے دبتے چلے گئے ،جب کم ظرف لوگ اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالنے لگیں تو ملک و قوم و معاشرہ ایسا ہی بن جاتا ہے جس طرح کے معاشرے میں ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں غریب کے لیے فاقہ کشی اور نئے نئے امیروں کے لیے وہ سب کچھ جو وہ چاہیں ان امیر ذادوں کے اطوار ایسے ہیں کہ ان کی ٹھوکر پر سب کچھ وہ سب کچھ جائز نا جائز حربوں سے لپیٹ لیں وہ پھر بھی شرفا،ایلیٹ کلاس او ر غریب کی دو وقت کی روٹی بھی اگر پوری نہ ہو تو اسکا نصیب ۔ ہمارے ملک میں نئے نئے امیر زادے اپنے سے ہلکے آدمی سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور جب بھی چاہیں جیسے تیسے عوامی نمائندے بن جائیں تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ وہ قومی اسمبلی میں جا کر اپنی عادت خصلت اور تربیت کے مطابق خیالات کا اظہار کرے اور بازاری زبان استعمال کرے تو اسکا کیا بگڑتا ہے اور کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے وہ عزت دار لوگ ہوتے ہیں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں عام آدمی کا ذہین اس قابل نہیں ہوتا کہ ان کو سمجھ سکے وہ پڑھے لکھے صاحب دولت و ثروت لوگ ہوتے ہیںسو لگا کر ہزار کمانے والا طبقہ ہلکے حسب نسب کے ساتھ بہترین گھریلو تربیت یافتہ پڑھے لکھے لوگوں کے سامنےان کی نگاہ میں مرد اور عورت دونوں صرف انسان ہیں ان میں کوئی فرق نہیں کھلا اور بیباک معاشرہ ہے ہر طبقہ کے لوگ جانتے ہیں کہ نمائندے کیا بات کررہے ہیں اگر کثیف زبان استعمال کرتے ہیںتو کوئی وجہ ہوگی ورنہ اعلی معیار اور مرتبے کے لوگوں کے بارے میں عام رائے قائم کرنے کےلئے زبان صاف کرنا پڑتی ہے کہ صاحب کے نام کی بے حرمتی نہ ہو جائے۔ معاشرے کی بے حسی دیکھئے کہ مستورات جس کا مطلب ہی چھپی ہوئی کے ہیں وہ بھی مردوں کی تقلید میں ایسی زبان استعمال کرنے لگی ہیںجسے سن کر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ افسوس بھی ہوتا ہے کہ تعلیم اور تربیت کے باوجود دونوں چیزیں انکا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔ ہمارے معاشرے میں رہنے والوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایوانوں میں ایسی جذباتی تقریر کی جاتی ہیں کہ گھر میں بیٹھ کر ٹی وی پہ بھی نہیں سن سکتےکبھی ہم نے سوچا ہے کہ گھٹیا اور غیر معیاری زبان کا اثر ہماری نئی نسل پر کیا ہو رہا ہے گلیوں اور بازاروں میں بھی نئی نسل کی زبان اتنی ہی کثیف ہو چکی ہے جتنی ایوان میں صاحب عزت تقریر کرتے ہیں عوامی مسائل کم زیربحث ہیں اسکی جگہ ذاتی بغض عناد سے بھری گفتگو سماعتوں میں زہر گھولتی چلی جاتی ہے اسمبلی کی کاروائیاں دیکھتے اور سنتے عمر گزر گئی لیکن ہمیں معیار سے گری ہوئی ایسی گفتگو سننے کا اب موقع ملا ہے ۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت کچھ لائی ہے ہم نے غیر میعاری اہداف مقرر کر لیے ہیں شرم و حیا والا ماحول ختم ہو چکا ہے اب تو آزادی اظہار ہے آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیںکھل کر کہیں کوئی روک ٹوک نہیں اور پھر نمائندے تو مخصوص لوگ ہیں وہ ہر طرح کی پاپندی سے آزاد ہیں اگر ان کو پابند کر دیا تو پھر عوامی مسائل کی آڑ میں کھل کر بات کون کرے گا۔ کھل کھلا کے بات کرنے والے تو نمائندے ہی ہو سکتے ہیںاخبارات تو سب کچھ چھاپ دیتے ہیں اندر کہانیاں اور باہر کے قصے سب کچھ باہر کے آدمی کے علم میں آ جاتا ہے اچھے اور برے تبصرے پہ بے لگام تقریر یں خود انوائٹ کرتی ہیں اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائے یہ ملک کس مقصد کے لیے قائم ہوا اور ہم اسے کس طرف لے جا چکے ہیںآج غیر ملکی ادارے ہمیں دھمکی دے رہے ہیں کہ فلاں فلاں ٹیکس لگائیں ورنہ قرضہ نہیں ملے گا بلکہ دیئے ہوئے قرضے بھی واپس کرنے کے لیےدباو بڑھے گا ہم ایک آزاد قوم ہیں یا محکوم ہم نے اپنا سب کچھ داو پہ لگایا ہوا ہے قوم دن بدن بیرونی قرضوں میں دبتی جا رہی ہے اب تو ایک مہینے کا گھریلوخرچہ بھی مشکل ترین امر بن چکا ہے لگتا یوں ہے کہ کچھ وقت بعد دو وقت کی روٹی بھی ہاتھ سے چھن جائے تنخواہ دار طبقہ تو سسکیاں لے رہا ہے محدود آمدنی میں گھریلو اخراجات پورے نہیں ہو سکتے کس کو حال دل سنایا جائے بڑے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر ان سے کہا جائے کہ روٹی پوری نہیں ہو رہی تو کہیں گے کہ کیک کھا کر پورا کرلیں اللہ اس پاک ملک پر رحم فرمائے لوگ مایوس ہو رہے ہیں شب و روز گزارا کرنا مشکل ہو رہا ہے معاشرتی تنزلی ہے جان مال اور عزت کا تحفظ بھی آسان نہیں رہا ہمیں کیا ہو گیا ہے مقتدر حلقہ صرف اپنی ذات کے مفادات کے لیے ایکٹیو ہے نفسانفسی کا عالم ہے عوام کو خوشحالی کا خواب دیکھتے ہوئے پچھتر سال بیت گئے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس وقت کون سا ایسا جرم ہے جو اس دھرتی پہ نہیں ہو رہامیں سمجھتا ہوں بزرگوں کی دعاوں کی بدولت یہ ملک تا قیامت قائم دائم رہے گا اللہ کرے اس معصوم قوم کو غیب سے ایسا نیک صالح ہمدرد لیڈر مل جائے جو ملک کی کشتی کو بھنور سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال دے تاکہ آنے والی نسلیں خوشحالی کی زندگی بغیر مقروض ہوئے گزار سکیں ۔ اس وقت تو شاہینوں کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے