ضرب المثل ہے کہ سچا اور حقیقی دوست وہی ہے جو مصیبت کے لمحات میں کام آئے لیکن دنیا میں ایسے دوست کمیاب ہیں ۔زندگی میں کچھ دوست ایسے بھی ملتے ہیں جو آڑے وقت میں دوست کو چھوڑ کر روپوش ہو جاتے ہیں۔کچھ دوست مصیبت کے دنوں میں دوست کے کام تو نہیں آتے لیکن دوست کو آس اور امید کا فریب دیکر اسے مایوس نہیں ہونے دیتے لیکن ان کے بحری بیڑے کبھی مدد کیلئے نہیں پہنچ پاتے ،جب ان کی کشتی بیچ منجدھارکے غرقاب ہو جاتی ہے تو پھر ان کا تاسف اور کف افسوس ملنا کوئی معنی اور حقیقت نہیں رکھتا ۔جسے ہم دوستی اور وفا کا نام دیتے ہیں وہ صرف میل جول ہی ہے جو رفتہ رفتہ ایک کاروباری سودا بن جاتی ہے جس میں اپنی عزت نفس ہمیشہ دوسروں سے نفع کی متوقع اور طلبگار رہتی ہے ۔وہ دراصل دوستی کے پردے میں دشمن ہی ہوتے ہیں جن کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہوتا ہے ۔بین الاقوامی سیاست میں بھی دوستی دشمنی ،مہربانی اور سرد مہری جیسے الفاظ وقتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ریاستیں مستقل دوست یا دشمن نہیں رکھتیں بلکہ ان کے مفادات مستقل ہوتے ہیں ۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی اسی اصول کی عملی تعبیر رہے ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد ہی سے امریکہ نے پاکستان کو سوویت اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر دیکھا اور پاکستان نے بھی عسکری و اقتصادی امداد کیلئے امریکہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔سرد جنگ ہو یا افغان جہاد ،دہشتگردی کیخلاف جنگ ہو یا چین کے بڑھتے ہوئے اثرات ،پاکستان ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میںامریکی خارجہ پالیسی کے دائرے میں شامل رہا ،تا ہم یہ تعلقات کبھی بھی کامل اعتماد یا مستقل خیر خواہی پر مبنی نہیں رہے ۔وقتاً فوقتاً امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالا ،امداد روکی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی ۔امریکہ جسے ہم اپنا دوست سمجھ کر قناعت کرتے رہے ،ہماری معاشی بد حالی میں اسی امریکہ کا بہت بڑا ہاتھ اور کردار بھی ہے ۔وہ جب چاہتا ہے ہمیں اپنے چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ہم پر پابندیاں بھی لگا دیتا ہے ۔امریکہ آج کل پاکستان پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے بدلے میں پاکستان بھی ٹرمپ کے صدقے واری جا رہا ہے یہ بھول کر کہ پولیس والوں کی طرح اس کی دوستی اچھی نہ دشمنی؟پاکستان چین کو بھی پس پشت ڈال کر امریکہ پر لٹو ہو رہا ہے یہ بھول کر کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں ۔جسے امریکہ نے دوست بنایا وہ ذلیل و خوار ہوا ۔عراق ہو یا کویت ،مصر ہو یا لیبیا ان ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔کبھی یہ بھی امریکہ کے رائٹ ہینڈ تھے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کیخلاف معاشی حملہ کرتے ہوئے 50فیصد تک اضافی ٹیرف عائد کر دیا ہے ۔امریکی صدر نے بھارت کی جانب سے مسلسل خریداری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو اس فیصلے کی قیمت چکانا پڑے گی ۔امریکی صدر نے بیان دیا کہ ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان بھارت کو تیل برآمد کرے ،یہ کیسے ممکن ہو گا اس بارے میں صدر ٹرمپ نے وضاحت نہیں کی ۔امریکہ بہادر کی ہم پر حالیہ عنایت کوئی انہونا واقعہ نہیں ۔اس سے پہلے بھی وہ کئی بار محبت و شفقت ،عنایت اور مہربانی کر چکا ہے ۔ اسے جب بھی ہم سے کوئی کام نکلوانا ہوتا ہے وہ ہم سے اچانک یونہی محبت و شفقت کا رویہ اختیار کرنے لگتا ہے البتہ اس بار جو بڑا فرق نظر آرہا ہے وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ اس کا معاندانہ رویہ ہے جس پر خود انڈیا والے بھی حیران و ششدر ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر بھارت میں مودی کے پیروکار شادیانے بجا رہے تھے آج جشن طرب کی جگہ صف ماتم بچھی نظر آتی ہے ۔ٹرمپ اپنی ہر تقریر میں بھارتی حکومت پر لعن طعن کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ہم جیسے غریب و مقروض ملک پر امریکی مہربانیاں بلاوجہ نہیں ہوتیں اس کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بڑا مفاد چھپا ہوتا ہے ۔ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ہم ماضی میں بھی ایسی امریکی نوازشات سے مستفید ہوتے رہے ہیں جس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں جنرل ضیاء کے دور میں افغانستان میں روسی مداخلت روکنے کیلئے ہم پر مہربانیاں کیں بعد میں نظریں پھیر لیں ۔اسی دور میں ہم پر اقتصادی پابندیاں بھی لگائی گئیں ۔ہمارے چالیس ایف۔16طیاروں کی ترسیل روک کرہماری پہلے سے دی گئی بھاری رقوم بھی اس نے کئی سالوں تک روکے رکھی اور بعد ازاں اس رقم کے بدلے ہمیں گندم لینے پر مجبور کر دیا ۔ایسی زیادتی دنیا کے کسی ملک کے ساتھ نہیں ہوئی ۔ماضی کے تناظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا اور سبق ملتا ہے کہ اس کی یہ مہربانیاں بھی عارضی ہو سکتی ہیں ۔ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق حتمی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب کیا پینترا بدل لے کیونکہ اس کا انداز حکومت سنجیدگی اور شائستگی سے دور ہے ۔وہ بظاہر جذباتی اور عاجلانہ فیصلے کر رہے ہیں ۔کل وہ ایک نیا فیصلہ کر دیں یا اپنے انہی فیصلوں پر یو ٹرن لے لیں کسی کو نہیں معلوم ۔معروف فلاسفر اور دانشور نطشے نے کہا تھا ”کچھ لوگوں کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔وہ یکا یک بغیر کسی علت اور سبب کے ، بغیر کسی لحاظ و جواز کے مقدر کی طرح اچانک نمودار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ آسمانی بجلی کی طرح چمکتے ہیں وہ ہیبت ناک بھی ہوتے ہیں اور جابر بھی لیکن ان کی عظمت اتنی خیرہ کن ہوتی ہے کہ کوئی ان سے نفرت بھی کرنا چاہے تو نہ کر سکے ۔جو قوت انہیں متحرک اور فعال رکھتی ہے وہ شدید نوعیت کی خود ستائی ہے ۔بالکل ویسی ہی خود ستائی جیسے کوئی فنکار لازوال فن پارہ تخلیق کرنے پر محسوس کرتا ہے یا کوئی ماں بچے کو جنم دینے کے بعد محسوس کرتی ہے ”۔نطشے کی یہ بات مکمل طور پر نہ سہی مگر جزوی اعتبار سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر صادق آتی ہے ۔ آپ اس قسم کے افراد سے متعلق کوئی بات بھی مکمل وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے ۔کسی قسم کی پیش بینی نہیں کی جا سکتی کہ مستقبل میں ان کا جھکائو کس طرف ہو گا ۔عاشقان عمران خان کو قوی خوش گمانی تھی کہ وہ قائد انقلاب کی رہائی کیلئے ذاتی دلچسپی لیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد ۔ماضی کے تناظر میں دیکھیں ،یکم دسمبر 2016ء وزیر اعظم نواز شریف کی نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ٹرمپ نے نواز شریف کو عظیم ترین انسان اور زبردست ساکھ کی حامل شخصیت قرار دیا اور یہاں تک کہا کہ آپ سے بات کرتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارا برسوں کا یارانہ ہے ۔پھر اسی ٹرمپ نے نواز شریف کو Terrific Gayکہہ دیا۔ ٹرمپ نے ہی 2018ء میں ٹویٹ کیا کہ امریکہ نے پاکستان کو 33بلین ڈالر سے زائد امداد دی لیکن بدلے میں امریکہ کو پاکستان کی طرف سے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہ ملا ۔امریکہ نے پاکستان کی عسکری امداد بند کی ،دفاعی روابط محدود کئے اور پاکستان کو افغانستان میں ناکامی کا سبب قرار دیا مگر صرف ایک سال بعد جولائی 2019ء میں حالات نے پلٹا کھایا ۔ عمران خان کو واشنگٹن بلایا گیا ،سرخ قالین بچھایا گیا اور اسی ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی کیونکہ انہیں ایک طرف افغانستان سے باعزت انخلاکیلئے پاکستان کی مدد درکار تھی اور دوسری طرف انہیں چین کے خلاف ایک علاقائی توازن بھی بنانا تھا ۔امریکہ کی بے رخی تو سب پر عیاں ہے جس کا اظہار بر ملا خوجہ آصف بھی کر چکے ہیں ۔وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ ہر بار جب بھی امریکی یہاں آئے خطے کا جغرافیہ تبدیل ہو کر رہ گیا ۔آج مبصرین حیران ہیں کہ پاکستان پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نوازشیں کس ایجنڈے کا حصہ ہیں ۔امریکہ نے کبھی گھاٹے کا سودا تو نہیں کیا ۔معزز و محترم قارئین بات دوستی اور وفا داری سے شروع کی تھی ۔شاید ہمارا امریکہ سے وفا اور دوستی کا رشتہ خوف اور ضرورت کا ہی مرہون منت ہے ۔ قتیل شفائی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا نام جس نے وفا رکھ دیا
پاکستانی عوام کی یہی خواہش ہے کہ ہم امریکی پیروکار نہ کہلائیں ۔ہمیں بحیثیت پاکستان ایک مضبوط قوم کی طرح اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے اور اپنے خدوخال امریکی آئینے میں تلاش کرنے سے گریز کرنا ہو گا ۔
کالم
شاید کچھ بے سبب نہیں یہ نوازشیں
- by web desk
- اگست 20, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 26 Views
- 2 دن ago