کالم

شرفا اور عزیز فیصل والی بشیراں

شرفا عموما ًبزدل اور اکثر محتاط ہوتے ہیں۔وہ دل کی بات کو دل سے نکلنے نہیں دیتے ،کہ کہیں نوک زبان نہ ہو جائے۔ وہ خود جوکچھ چپکے چپکے سوچتے رہتے ہیں ، اگر کوئی وہی کچھ کرتا نظر آجائے تو اسے اتنے پیار سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ خود پیار کو بھی حجاب آ جائے ۔ ہاں مگر جن کو زعم پارسائی نہ ہو ، یا جن کو اپنی شرارت یا جسارت کو مذاق یا مزاح میں چھپانے کا فن آتا ہو ،ان کی بات دوسری ہے۔
’ہاسا خاصا‘اور’غلط پارکنگ‘کے بعد ڈاکٹر عزیز فیصل اب اتنے بے خوف اور پر اعتماد ہو چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے دل میں چھپی جملہ چورنیوں کےلئے ایک مستقل نام کا انتخاب کر لیا ہے۔ یہ گمان کرتے ہوئے کہ”بشیراں“کا نام یا عنوان انکی شرافت پر حرف نہیں آنے دے گا،انہوں نے بشیراں کو اپنے دل میں مستور تمام تر رازوں کی امین قرار دے دیا ہے ۔گویا اب جس نے جو تحقیق و تفتیش کرنی ہو ،وہ عزیز فیصل سے نہیں ، مسماة بشیراں سے کرے۔ اپنی مزاحیہ شاعری کے تازہ مجموعے ”بشیراں تم تو واقف ہو“کو عزیز فیصل نے صنف مزاح گوئی کی تازہ کڑی قرار دیا ہے ۔اب شاعر کے لسانی اور انسانی تصرفات کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھ نہیں پا رہا کہ اس تازہ کڑی کے”ک“پر پیش ہے یا زبر ۔ایک محتاط طرزعمل کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں کو بیک وقت تسلیم کر لیا جائے۔کیونکہ ہر شاعر کی بشیراں سن و سال کی قید سے ہمیشہ آزاد ہوتی ہے، لہذا وہ ضعیفہ ہو کر بھی ہمیشہ کڑی یعنی لڑکی ہی رہتی ہے۔پھر ہمارے شاعر نے ”بشیراں تم تو واقف ہو“کا دعویٰ بھی دائر کر رکھا ہے ، جو باور کرا رہا ہے کہ سب کچھ سے واقف ہونے والی بشیراں اچھی خاصی تجربہ کار رہی ہو گی ، یا ہونی چاہئے اور اگر یہ عزیز فیصل کی مزاح نگاری کے سلسلے کی تازہ کڑی ہے ،تب بھی ٹھیک ہے۔ عزیز فیصل نے بشیراں نام کی جس عفیفہ کا کردار برائے چھیڑ چھاڑ اور مزاح نگاری تخلیق کیا ہے،اس شعری مجموعے کے بعد وہ ان کی شخصیت اور شاعری کا لازمی جزو بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ بشیراں کی اوصاف شماری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛
یہ چار خوبیاں ہیں بشیراں کے روپ میں
قاتل ادا ہے، شوخ ہے ، الہڑ ہے، بانکی ہے
اسی طرح جب وہ کہتے ہیں کہ؛
ہر شخص بچھڑ سکتا ہے محبوب سے لیکن
فیصل کا بشیراں سے بچھڑنا نہیں بنتا
تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ شاعر کو خود بھی اس کا ادراک ہے ، یعنی یہ کہ ؛مسما بشیراں ،حال مقیم قلب و نظر عزیز فیصل ، بلا جبر و کراہ غیرے ہمارے شاعر کے اعصاب اور حساب پر مکمل طور پر سوار ہو چکی ہے.اور حد تو یہ ہے کہ اب شاعر کو اس کی ڈانٹ ڈپٹ بھی بری نہیں لگتی؛
دل مرا ویسے ہی بدظن ہے ریاضی سے بہت
کیوں کیا جائے بشیراں تری ڈانٹوں کا حساب؟
بشیراں کے کردار کے مقابل بیوی ایک محتسب ، ایک ولن اور ایک خطرے کے طور پر ہمہ وقت موجود و متحرک رہتی ہے ، اور شاعر ایک زیرک سیاستدان کی طرح اصولی طور پر اس سے ڈرنے کا ڈرامہ کرنے کی حکمت عملی کو اپنائے رکھتا ہے،
بیگم کی تصویر کے پاس سے جونہی گزروں
حسب ضرورت دل ہی دل میں ڈر لیتا ہوں
اور اس ڈر کے جواز کو بھی شاعر چھپاتا نہیں ہے؛
بیوی کے نوٹس میں ہیں
اس کے لچھن اور طریق
ڈاکٹر عزیز فیصل واقعتا بڑے استاد ہیں، مطلب صرف استاد نہیں ، استادوں کے مدارالمہام بھی ہیں۔طبیعت میں وہ سب کچھ موجود و متحرک ہے ،جو ایک حاضر سروس مرد کے ہاں کبھی ہوتا ہے تو کبھی سوتا ہے۔اضافی طور پر وہ ایک شاعر بھی ہیں ، اور اپنے شاعر ہونے کا سوچ کر تو خود ڈاکٹر صاحب کی اپنی ہنسی نکل جاتی ہے۔مزاج میں مزاح کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ یہ مقدار حد سے بڑھی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طبع شاعرانہ کی تسکین ماہرانہ کے لیے رقبہ جاتی تجاوزات سے بھی گریز نہیں کرتے۔بہت با اخلاق اور محتاط بھی ہیں ،اسی لیے مزاحیہ شاعری کے مجموعے کے آغاز میں انہوں نے یہ اعلان رقم کر رکھا ہے کہ؛محترم قارئین: بشیراں تم تو واقف ہو‘صنف مزاح گوئی کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب میں موجود بعض غزلیات مختلف شعرا کی زمین میں لکھی گئی ہیں۔ جن کا تذکرہ کر دیا گیا ہے۔ اگر کسی غزل کے بعد نادانستہ تذکرہ موجود نہیں تو میں پیشگی معذرت خواہ- مصنف”اس اعلان و اعتراف کے بعد ڈاکٹر عزیز فیصل قدیم و جدید شعرا کی زمینوں پر شعر کہہ کر شریر بچوں کی طرح خوش ہوتے ہیں۔دوسری طرف بعض معاصر شعرا اپنی فراموش کردہ نظم غزل کی زمین پر نئے شعری تجاوزات سے حیات نو کے مزے اڑاتے ہیں۔ یہیں پر بس نہیں؛ اس مجموعے میں وہ شعر اقبال کے دروازے پر بھی کم از کم پانچ بار گھنٹیاں بجا کر ادھر اودھر نکل گئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کی مزاحیہ شاعری میں بھی مرد دانا اور سیر چشم ہونے کی بجائے ترسا ہوا محروم آرزو مرد ناداں ہی نظر آتا ہے۔اس کا کلام نرم و نازک معاصر مستورات کے قلوب آہن مثال پر ذرا اثر انداز ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ڈاکٹر عزیز فیصل نے اپنی واردات ہائے قلبی و ذہنی اور قدرے بدنی و انسانی کے ابلاغ میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔یہ وہ جری بہادر شاعر ہیں ،جو اپنے نظم فکر و فراست میں اٹکی ”بشیراں“کے وجود کا برملا اعتراف و اعلان کر رہے ہیں۔ وہ از راہ احتیاط یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان کی بشیراں ان کی قلبی و بدنی کیفیات اور ان کیفیات کی متنوع جہات و جزئیات سے مکمل طور پر واقف و آگاہ ہے ۔ اگرچہ پرچہ نویسوں کے مطابق وہ اکثر ایک ضخیم پنجابی لغت کھول کر لفظ ”میسنی“کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، پھر بھی مسما ة بشیراں ان کی چشم آرزو کا مساوی جواب دینے کے عوض اپنے شاعر کو اقلیم ابہام میں مقیم و مقید رکھتی اور لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے۔ شاعر کو یقین کامل ہے کہ انکی والی بشیراں سب جانتی اور سمجھتی ہے
وہ کیوں کرتا تھا ہر اک بات پر ناں، تم تو واقف ہو
اسے جوتوں نے سکھلائی ہے جی ہاں،تم تو واقف ہو
مری بے رحم کولیگو، اکیلے بیٹھ کے ہر وقت
میں رہتا ہوں بھلا کیونکر پریشاں، تم تو واقف ہو
بتاو¿ں کس طرح سے میں کہ کتنا اک بہادر ہوں
کہ اس سے اے مرے بچوں کی اماں، تم تو واقف ہو
میں لکھ سکتا ہوں کیا ان بکس میں جا کر حسینوں کے
مرے ان مست جملوں سے "بشیراں تم تو واقف ہو”
مجھے درکار ہے دیدار والا دودھ سوڈا صرف
مری ڈیمانڈ سے اے تھرسٹی کاں، تم تو واقف ہو
اپنے شعری مجموعے میں اگرچہ ڈاکٹر عزیز فیصل نے رام نرائن موزوں کی روح سے معذرت تو کر لی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ غزالاں کی جگہ بشیراں کو بٹھا کر انہوں نے زمانی تغیئرات کے رخ اور مزاج کی نشاندھی بھی کر دی ہے ۔ گویا انہوں نے اپنے طریقے اور جدا سلیقے سے جرات گریز اور کم ہمت شرفا کےلئے اظہار و ابلاغ کا ایک راستہ بصورت بشیراں کشادہ کر دیا ہے کہ ؛ مزاحیہ شاعری کا سہارا لے کر دل کی بھڑاس اس طور نکالی جا سکتی ہے کہ ؛ کوئی شک بھی نہیں کرے گا۔ اے بشیراں ! تمہیں تو اس بات کی گواہی ضرور دینی چاہئے کیونکہ بقول عزیز فیصل؛ بشیراں تم تو واقف ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے