کالم

شنگھائی تعاون تنظیم اور علاقائی تنازعات

یقینا شنگھائی تعاون تنظیم کےاغراض ومقاصد پر اگر دل وجان سے عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ علاقائی ہی نہیں عالمی مسائل حل کرنے میں بھی خاطر خواہ مدد مل جائے ، یہی وہ حقیقت ہے جسے حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان نے قازقستان کے دارلحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتی ہوئے بیان کیا ، شہبازشریف نے بجا طور پر درست کہا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم نے عملا مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے ہے تو اسے رکن ممالک ہی نہیں عالمی برداری میں سیاسی محاذ آرائی کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، وزیر اعظم پاکستان نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ دہشت گردی کی تمام اقسام کا خاتمہ ضروری ہے ، بظاہر شبہازشریف کا اشارہ بھارت اور افغانستان جیسے ممالک کی طرف تھا جو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سیاسی ، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر منعظم دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کررہے ہیں ، اس پس منظر میں یہ سوال بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام کب کیوں اور کیسے وجود میں آیا، ردحقیقت شنگھائی تعاون تنظیم سیاسی ، اقتصادی اور عکسری تعاون تنظیم ہے ، مذکورہ تنظیم کا قیام 2001 میں شنگھائی میں عمل میں آیا ، تنظیم کے ابتدائی رکن ممالک میں چین ، قازقستان ،کرغستان ، روس ، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے ،بعدازاں جولائی 2015 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کو بھی شامل کرلیا گیا، شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت یوں قابل زکر رہی کہ پاکستان 2005 سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر رکن تھا جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقائدگی سے شرکت کرتا رہا ، 2010 میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گی جس پر باضابطہ غور کرنے پر ممبران کی جانب سے اتفاق سامنے آیا ، بعدازاں پاکستان کی شمولیت پر رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگی ، 9جون 2011 کو پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کا باضابطہ رکن تسلیم کرلیا گیا ، شنگھائی تعاون تنظیم کو کئی اہم چیلنجز کا سامنا ہے، بظاہراس کی نمایاں وجہ یہ ہے کہ اقوام عالم میں طاقت کا توازن بتدریج ہی سہی مغرب سے اب مشرق کی جانب جھک رہا ہے ، بلاشبہ چین مغرب کا معاشی ہی نہیں سیاسی میدان میں بھی بھرپور مقابلہ کررہا ہے چنانچہ یہ سمجھنے کے لیے سقراط جیسی دانش کی ضرورت نہیں کہ مغربی ممالک جنوبی ایشیا میں چین کا گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، افغانستان کی صورت حال یقینا شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ، مثلا کابل میں طالبان کی حکومت ہے جو انتہاپسندی کی کسی بھی تعریف پر پورا اترتی ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک تو ایک طرف تاحال مسلم ریاستوں نے بھی طالبان کا افغانستان پر حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا ، پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے ، پاکستان کی جانب سے روس اور افغانستان جنگ کے بعد جس طرح سے لاکھوں افغان مہاجرین کو سالوں نہیں دہائیوں تک اپنے ہاں رکھا اس کی مثال جدید تاریخ میں نہیں ملتی ، یہاں یہ سوال بھی اہم ہےکہ آخر تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان کو کیا ملا ، معاملہ کا یہی وہ پہلو ہے جس پر وزیر اعظم شبہازشریف ایک سے زائد مرتبہ اظہارخیال کر چکے ۔ وزارت خارجہ کا مطالبہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ افغان طالبان کواپنی سرزمین پر موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ایسی موثر کاروائی کرنی ہوگی کہ اسے سرحد پار دہشت گردی کی ہمت نہ ہو، مقام شکر ہے کہ پاکستان کے موقف کو شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رکن ممالک بھی تسلیم کررہے ہیں، سچ ہے طالبان حکومت تاحال پاکستانی طالبان کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے ایک اور بڑا چیلنج پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات کا فروغ ہے ،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ رکن ممالک کی خواہش اور کوشش ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد میں ایسے دوستانہ تعلقات کا فروغ یقینی بنایا جاسکے جو جنوبی ایشیا میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم امن ،استحکام اور خوشحالی کے فروغ میں معاون ثابت ہو، سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی ہمیشہ سے خواہش اور کوشش یہی ہے کہ بھارت کے ساتھ بہتر دوستانہ تعلقات کا خواب شرمندہ تعبیر ہو، وزیر اعظم شبہازشریف بھی ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مسلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے پرامن حل کا خواہشمند ہے ، بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت میں تسلسل کے ساتھ نریندر مودی کی حکومت چلی آرہی ، ہم باخوبی جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست پاکستان ، اسلام اور مسلمان مخالف ہے ، مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد یہ مشکل ہوچکا کہ نئی دہلی پاکستان کے ساتھ معنی خیز بات چیت کرسکے ، دراصل یہی وہ صورت حال ہے جو خطے میں مستقل کشیدگی کا باعث بن چکی ، اقوام متحدہ ہی نہیں کم وبیش تمام علاقائی اور عالمی ادارے رٹا رٹایا موقف بیان کررہے کہ مسئلہ کشمیرسمیت تمام مسائل پاکستان اور بھارت کو حل کرنے ہیں، بلاشبہ یہ صورت حال کسی طور خطے کے امن کے لیے نیک شگون نہیں ،اس ضمن میں یہ امید کرنا ہرگز بلاجواز نہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم اپنا اثر رسوخ بھارت پر یوں استعمال کرے کہ وہ جلد یا بدیر پاکستان سے معنی خیز بات چیت کےلئے آمادہ ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے