کالم

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اور اثرات !

اسلام آباد میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو خطے میں قیام امن کیلئے امید کی کرن قرار دیا جارہا ہے اور اس کانفرنس کے انعقاد سے خطے کے ممالک کے عوام کو بہت توقعات وابستہ ہیںاور پوری دنیا کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہے اور وہ نتائج اخذ کرنے میں مصروف ہیں اس کانفرنس کے انعقاد سے خطے کے ممالک نے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا یہ سنجیدگی کی علامت ہے اس سے سخت فیصلے کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور شریک ممالک میں تلخی اور تناﺅ کی کیفیت کم ہوتی ہے تو یہ سے خطے میں اطمینان کا سفر شروع ہوگااور سامراج کے قائم کردہ خوف کے سائے اور اس کے مسلط کردہ بھوک اور افلاس اور بد امنی کا خاتمہ ہوگا۔ د شمن کا تعین مشکل نہیں ہے پاکستان میں جو عناصر بغاوت اور دہشت گردی میں مصروف ہیں اس میں کوئی ابہام نہیں کہ یہ سب کچھ سامراج کی کارستانی ہے جس طرح افغان جنگ میں وہ ڈالر اور اسلحہ تقسیم کرتا تھا اب بھی وہ اپنے آلہ کاروں میں یہ سب کچھ تقسیم کرنے میں مصروف ہے ۔ ایران میں دہشت گردی کو کون کراتا ہے سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہوتی اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو پڑوسی ممالک کا دشمن بنادیا جائے اور دخلی اور خارجی طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد امریکہ اور دوسرے سامراجی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان لگائی بجھائی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کبھی بہتری بھی آئی ہے تو اسکے ڈورے بھی سات سمندروں کے پار سے ملتے رہے ہیں چونکہ روز اول سے ارباب اقتدار نے واشنگٹن کو اپناسیاسی قبلہ بنایا او ر پینٹا گون اور وہائٹ ہاﺅس کو مرکز اختیار کیا جس کا شاخسانہ یہ نکلا کہ ہم پڑوسی ممالک کے لئے اجنبی بن گئے ہمارا شمار آلہ کاروں میں ہونے لگا اور اور پڑوسیوں کی نظروں ہم ناقابل اعتبار ٹھر گئے اس حوالے سے ہمسایوں کے لئے بھی ہم ناقابل قبول ہوگئے اور عوام اور حکمرانوں کے مابین بھی دوری پیدا ہوئی اور اسے جو نتائج پیداہوئے وہ آج سب کے سامنے ہیں ۔
یہ امر قابل تحسین ہے کہ موجودہ وقت میں حالات نے کچھ پلٹا کھایا ہے اور اہل اقتدار طبقہ بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کے سلسلے میں عوام کی بولی بولنے لگا ہے اور اسکا لہجہ بھی کچھ تبدیل ہوگیا ہے اور ایسا محسوس ہوا ہے کہ مقتدر طبقہ بھی اپنا وزن عوام کے پلڑے میں ڈال رہاہے شنگھائی تعاون تنظیم کی طرف سے یہ آثار سامنے آرہے ہیں کہ یہ صدی ایشیا کی صدی ہے اور اس امر کی نشاندہی متعدد بار شریک ممالک کی طرف سے اظہار ہورہا ہے اور اس میں شک نہیں کہ دنیا اب کثیر محوری(multipolar )دور میں داخل ہو چکی ہے جس میں چین ،روس، ایران ، بھارت اور پاکستان کا اہم کردار ہوگا ، لہجے کی یہ ایک اچھی تبدیلی ہے جس کا فائدپورے ہ خطے کو ہوگا ۔اور اسکے علاوہ خطے کے دیگرممالک کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کرنے سے بھی اعتماد میں اضافہ ہوگا اور چین بھی موجودہ درپیش حالات میں پاکستان کے کردار سے مطمئن نظر آتا ہے اور خطے ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ بھی آزاد تجارت کے معاہدے پر بات ہوئی یہ اس کی علامت ہے کہ پیش قدمی مثبت ہے او ر اگر ہمارا اور خطہ کے دیگر ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں بہتری لانے کا یہ عمل جاری رہا تو اس سے ملک کی داخلی صورت حال بھی اچھی ہوگی اور سیاسی اور معاشرتی استحکام حاصل ہوگا اور خطے پر بھی مثبت اثر پڑیگا لیکن راستہ بڑا کھٹن اور دشوار گزار ہے اور رکاوٹیں زیادہ ہیں بلوچستان کی شورش قبائلی علاقہ جات کی موجودہ صورت اور خون ریزی اور شمالی علاقہ جات میں شورش ملک اور قتل اور مقاتلے سامراج کی کارستانی ہے وہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اس بساط کو لپیٹنے اور ملک عدم استحکام کی طرف لے جانے کیلئے چالیں چل رہاہے ۔گزشتہ تین چار برس سے کے پے درپے عالمی واقعات کے بعد حالات نے جو پلٹا کھایا ہے اور اس کے بعد کے اقدامات اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ امریکہ نے اپنے لیئے ایک راستہ کا تعین کرلیا ہے اور آنے والے دن بڑے خطرناک ہونگے جس کیلئے بصیرت پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ وقت ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلق جوڑنے کا ہے ، امریکہ نے جو ڈرامہ ترتیب دیا ہے اس سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اعتماد میں اضافہ کیا جائے اور اپنے سرحدوں مضبوط بنایا جائے اور آپس کے اختلافات کو کم سے کم کیا جائے تاکہ سامراجی عزائم کا توڑ ہوسکے۔
یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دنیایک سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا ایک دوسرے سرد جنگ کی طرف جارہی ہے امریکہ اپنے استعماری پیش قدمی میں چین کو رکاوٹ سمجھتا ہے گورباچوف دور میں روس کی اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے بعد چین امریکہ کی آنکھوں کا کانٹا ہے اور امریکہ اپنے لیئے اسے رکاوٹ سمجھتاہے اور ایشیا میں اپنا اثررسوخ بڑھانے کیلئے پاکستان کی محل وقوع سے فائدہ اٹھنا چاہتا ہے اس کو پاکستان کے اس اقدام سے بڑا صدمہ پہنچا ہے کہ گوادر امریکہ کی بجائے چائنا کے ہاتھ میں کیوں چلاگیا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس خطے میں ایران ، چین، روس اور انڈیا اسکے لیئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں اس لیئے وہ بڑا سیخ پا ہے اور چین کے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ امریکہ بہت پریشان ہے اور چین کی بلوچستان اور خاصکر گوادر میں اس کی موجودگی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے بلکہ اسے چائنا اپنا رقیب نظرآتا ہے اور اسے پنے لیئے خطرہ اور مستقبل کی رکاوٹ سمجھتا ہے اسلئے وہ پاکستان اور خاص کر جہاں چائنا کا عمل دخل ہے وہاں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شورش برپاکرتاہے اور کوشش اس کی یہ ہے کہ شاہراہ ریشم اور گوادر کو آپس میں کاٹ دیا جائے اور سی پیک کے راستہ روکا جائے۔یہ بات حوصلہ افزاءہے کہ موجودہ وقت میں امریکہ کا کردار واضح طور پر سامنے آگیا ہے۔عام آدمی بھی اسکے کرتوتوںسے واقف ہوگیا ہے اور وہ یہ جان گیا ہے کہ امریکہ کیا کرتاہے اور کیا چاہتاہے اسلئے موجودہ حالات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ شعوری طور پر حالات کا مقابلہ کیا جائے اور نہایت ہوشمندی ، بردباری،اور سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے خطے کے ممالک کو اپنے اعتماد میں لیکر یورپی یونین کی طرز پر علاقائی اتحاد کے قیام کیلئے کوشش کی جائے جس سے سامراج کے لگائی بجھائی کی کو ششوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور یہی وقت کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ روابط اور معاہدات کو بڑھایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے