شاید پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ملک کہ جہاں ہمہ وقت سیاسی، مذہبی اور لسانی انتہا پسندی کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے جبکہ غیر ملکی دہشت گردی کے زخم الگ سہنا پڑتے ہیں۔ یہ ریاست متعدد بار انتہا پسندوں کے ہاتھوں زچ ہوئی جس نے انتہا پسند مائنڈ سیٹ کو شہہ دی اس سے ایک اور مشکل بھی سر پڑی کہ عوام کو کبھی مسلمانیت خطرے میں تو کبھی عشق کا امتحان، یہ ختم ہوتے نہیں کہ حسینیت کے علمبردار ہر کس و ناکس کو سپاہ یزیدی میں گردان کر آلات کذب و چرب کے ساتھ قلع قمع کو آن موجود۔ ایسے میں پاکستانی جائیں تو جائیں کہاں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہماری پیچیدگیاں دنیا کو الجھائے ہوئے ہیں یا دنیا ہمارے ذہن کو الجھائے ہوئے ہے۔ شورش زدہ چند مسلم ممالک کو چھوڑ کر باقی کسی ملک میں اتنی آزادی ہے اور نہ کہیں مذہب یا سیاست کے نام پر ریاست کو یرغمال بنانے کی اجازت، مگر یہ بھی تو حقیقت کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے اس آزادی کا بے رحمانہ اور ناجائز استعمال خوب کیا۔ انتشار اور ریاست کے خلاف بغاوت کرنیوالے ممالک کا حال دیکھ لیں لیبیا، شام، عراق، یمن، سوڈان۔یہ درست کہ حالات خوشگوار ہیں اور نہ آئیڈیل۔ نظام عدل اگر بانجھ ہے تو سماجی ناانصافیاں بھی۔ مگر یہ مسائل کسی طور بھی شاہراوں کی بندش، پرتشدد احتجاج، اور انتہا پسندانہ روئیوں کی دلیل نہیں بن سکتے۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے والی جماعتوں کو تو یہ کسی طور زیب نہیں دیتا کہ اسمبلی میں نمائندگی موجود اور وہ عوامی و قومی مسائل کی نشاندہی اسمبلی فلور اور طاقتور میڈیا کے ذریعے کر کے اپنی ذمہ داری بطریق احسن پوری کر سکتے ہیں۔ اگر مقاصد کچھ اور نہ ہوں تو پھر سڑکیں بند کرنے کی حاجت رہتی ہے اور نہ پرتشدد احتجاج کی ضرورت ۔ایک المیہ یہ ہوا کہ اب تہذیب کے دائرے میں اختلاف کے آداب ہی نہ رہے۔ شور کی کوکھ سے بیدار شعور نے معاشرے کی اخلاقی اقدار کو پامال ہی کر دیا ۔ آداب کے دائرے میں مکالمہ کا ماحول رہا اور نہ تعمیری و مثبت تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ۔ کیا یہ کڑوا سچ نہیں کہ ہم شعوری و لا شعوری طور اپنے حق تنقید کا بے وقت اور بلا ضرورت خوب استعمال کرتے ہیں کہ شاید کچھ تعمیری کرنے کو نہیں۔شعور کے فروغ اور فوری طور پر نافذ العمل کرنے کیلئے شور میں ع کے اضافہ کے ساتھ جو شعور بیدار کیا گیا اس نے اہل ادب اور حساس طبیعت کے حامل افراد کے چودہ طبق ہی روشن کر دئیے یہی وجہ ٹھہری کہ صاحبان علم و حکمت اور فہمیدہ و سنجیدہ احباب اب شعور کے نام سے ہی خوف کھانے لگے کہ سوشل میڈیا اور بے حکمت راہنمائوں کا عطا کردہ شعور بداخلاقی اور شر کے سوا کچھ نہیں ۔ زبان اگرچکھنے و بولنے کی خوبی سے متصوف ہے تو وہیں شعور کا پیمانہ بھی۔ اگر گفتگو آداب اور اخلاقیات کے دائرے میں ہے تو شعور وگرنہ شور۔ نامور فلسفیوں اور حکما نے شعور کی جو تعریف کی ہے اس کا لب لباب علم کا ذوق رکھنے والوں کی نذر”شعور دانائی، تہذیب اور حکمت کا مرکب "شعور کے تین گوشے جذبہ، ادراک اور ارادہ اور ہر باشعور میں شعور کا کوئی نہ گوشہ موجود اور غالب۔ کم علم ہونے کے باوجود باشعور ہونا اچنبھا نہیںاور اگر دامن تہذیب کی دولت سے خالی ہے تو علم سر میں بوجھ کے سواکچھ نہیں۔فی الوقت ہماری سیاست فضول گوئی، طعن و تشنین اور مخالفین کیلئے عرصہ حیات تنگ کر دینے کا نام۔ تعمیری و مثبت تنقید کرنے کا وصف رہا اور نہ سننے کا حوصلہ۔ پاکستانی سیاست میں اب رواداری، برداشت اور اخلاق کا دخل نہیں ایسے میں مفاہمت اور قومی امور پر اتفاق شیر کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف۔ ہمارے ایک طبقہ پاکستان کی اہمیت ، خصوصیت اور حیثیت پر ہمیشہ مشکوک رہا کچھ تو اس کے قیام پر بھی شاکی، تو کچھ سیاسی خلفشار میں الجھ کر بھٹکے ہوئے راہی۔ جس طرح جوہری کو موتی کی قدر معلوم ہوتی ہے اسی طرح مشکلات کی چکی میں پس پس کر کندن بننے والے پاکستان کی اہمیت تینوں بڑی طاقتوں کو معلوم۔ اسٹریٹیجک اعتبار سے اس کی اہمیت چین کیلئے تو اہم ہے ہی مگر امریکہ بھی کبھی پاکستان کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتا ہاں مگر بعض اوقات مفادات کی بنا پر تعلقات میں اتار چڑھائو لازم مگرہم بھی کبھی امریکہ سے وہ مفادات حاصل نہ کر سکے جو ہماری اہمیت کے پیش نظر بنتا تھا۔ ہمیں پڑوسی ملک چین کی دنیا سے نہ کٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہنا ہے تو ترقی کے اصول اور معیارات بھی چینی طرز پر استوار کرنے ہیں کہ جہاں تنقید، تحقیر اور انتشار کی بجائے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اور دوسروں کے معاملات میں کسی کو دخل کا حق ہے اور نہ وقت۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہمہ وقت اہنے وطن کو مطعون اور بلا وجہ آپنے آپ کو نااہل ثابت کرنے کی بجائے پاکستان کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اسکی قدر کی جائے۔ اقبال عظیم نے خوب کہا
حق تنقید تمہیں ہے مگر اس شرط کے ساتھ
جائزہ لیتے رہو اپنے بھی گریبانوں کا
حرف آخر۔ کلمات مغفرت دنیائے اسلام کی نامور علمی و روحانی شخصیت پیر سید عبدالقادر جیلانی کیلئے کہ جو دین متین اور آقا کریم کی نوکری میں اپنا حصہ ادا کر کے تہہ مزار چلے گئے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور پاکستان اور یورپ میں انکے قائم کردہ علمی مراکز امت کی راہنمائی اور قبلہ کیلئے صدقہ جاریہ ثابت ہوں۔
کالم
شور اور شعور و چینی حکمت عملی
- by web desk
- اکتوبر 29, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 10 Views
- 5 گھنٹے ago

