کالم

شہباز حکومت ! معیشت بڑا چیلنج

شہباز شریف نے دوسری بار وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھا لیا انہوں نے 201 ووٹ لے جبکہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب نے 91ووٹ حاصل کئے۔ صدر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔ اس تقریب میں فوجی قیادت سابق وزیراعظم نواز شریف اور آصف زرداری بھی موجود تھے۔ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ہم غیر منافع بخش اداروں کو دوسرے اداروں میں ضم یا فروخت کر دیں گے۔ ہماری پہلی ترجیح معیشت کی درستگی ہو گی سعودی عرب چین امریکہ ملایشیا نے شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ حلف کے بعد انہوں نے معاشی صورت حال کے بارے میں اجلاس کی صدارت کی جس میں انہیں معیشت پر بریف کیا گیا۔ ان بد ترین معاشی حالات میں مسلم لیگ ن پی پی پی ایم کیوایم اور دیگراتحادی جماعتوں نے بہت بڑا چیلنج قبول کیا ہیے۔ ملک میں مسال بہت زیادہ ہیں ان پر قابو پانا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں نواز شریف نے لندن سے واپسی پر پہلے خطاب میں کہا تھا کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ شہباز حکومت کے موجودہ اتحادی ان کے سولہ ماہ کے دورے حکومت میں بھی ان کے ساتھ تھے لیکن ان کا یہ دور عوام کے بنیادی مسال حل کرنے میں ناکام رہا ملک کو ڈیفالٹ سے نکالنے کے لے آی ایم ایف کی تمام شراط مان کر قرضہ حاصل کرنا پڑا۔ ایک بار پھر عوام نے مسلم لیگ ن کی قیادت بر اعتماد کا اظہار کیا ہیے اور اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر عوام کی خدمت کرنی پڑے گی۔ مریم نواز نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب حلف اٹھا لیا ہیے وہ ابتدا سے ہی بہت متحرک نظر آ رہی ہیں انہوں نے اپنی جماعت کے منشور پر عملدرآمد شروع کر دیا ہیے پنجاب بھر میں صفای اور ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہیں۔ رمضان میں مستحق افراد تک راشن پہنچانے کا ایک وسیع پروگرام بنایا گیا ہیے۔ سندھ اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں بن چکی ہیں۔ کے پی کے میں سنی اتحاد کونسل کے امیدوار علی امین گنڈا پور نے بطور وزیراعلی حلف اٹھا لیا ۔ ویسے تو سنی اتحاد کونسل اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گی ہیے لیکن ابھی تک ان کے رویے میں کوی تبدیلی نظر نہیں آ رہی اس کا اندازہ وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر حزب اختلاف کے شور شرابے سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہیے گزشتہ کی سالوں سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہیے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر نظام کو چلانا ہوگا الیکشن کے نتیجے میں مرکزی اور صوبای حکومتیں بن چکیں ہیں ۔ پی ٹی آی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے حلف اٹھا کر اسمبلیوں کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت کی غلط پالیسیوں پرتنقید ضرور کریں لیکن اسکا متبادل حل بھی بتایں۔ سنی اتحاد کونسل کے ممبران اسمبلی مخصوص نشستوں کے لیے اسمبلی میں احتجاج کر رہیے ہیں جو کہ ان کا حق ہیے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا سنی تحاد کو یہ نشستیں ملنی چاہیں۔ امریکہ نے پہلے تو مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن اب شہباز حکومت کے ساتھ چلنے کا اظہار کیا ہے۔ ادھر امریکی سینٹرز نے صدر بائیڈن کو خط لکھا ہیے کہ جب تک انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہ ہوں حکومت کو تسلیم نہ کیا جاے۔ شہباز حکومت کو بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا ہیے جس کے لے ایک بار پھر آی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا ۔ اتحادی زیادہ سے زیادہ وزارتوں کامطالبہ کر رہیے ہیں۔ لیکن حکومت کو ملکی وسال کو سامنے رکھتے ہوے وفاقی کابینہ کا حجم بہت کم رکھنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے ابھی وفاقی اور صوبای کابینہ کا بہلا فیز مکمل ہو ا ہیے اتحادیوں کی طرف سے وزارتوں کے لے دباو بڑھ رہا ہیے خاص طور پر ایم کیو ایم سندھ کی گورنری اور مزید پانچ وزارتوں کا مطالبہ کر رہی ہیے مسلم لیگ ن سندھ کی گورنر شپ تو شاید ایم کیو ایم کو دے دے لیکن پانچ وفاقی وزارتوں کا مطالبہ پورا ہو تا ہوا نظر انداز کرنا ہو گا۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کو بہت بڑا ریلیف دے کر مہنگائی کی دلدل سے نکالنا ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کے لے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کچھ کرنا ہوگا ہر سال ہزاروں کی تعدا میں نوجوان ڈگریاں حاصل کرکے نکل رہیے ہیں ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے ان کے اندر مایوسی پھیل رہی ہے حکومت کو بے روزگاری کے خاتمے کے لئے کریش پروگرام شروع کرنا ہو گا اب ہر نوجوان باہر جانے کی بات کر رہا ہیے کیونکہ اسے پاکستان میں روزگار کے مواقع نہیں مل رہیے ملک کا نوجوان طبقہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دے کر اپنے غصے کا اظہار کر چکا ہیے۔ پی ٹی آی کے خط کے جواب میں آی ایم ایف کی نمایندہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سیاسی نہیں صرف معاشی معاملات کو دیکھتا ہے۔ مسلم لیگی قیادت افہام و تفہیم سے ملکی معاملات چلانا چاہتی ہیے سینٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی طرز پر میثاق معیشت کرنا چاہیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہیے گہ اتحادی حکومت کس طرح عوام کو معاشی مسال سے نکالتی ہیے ۔ شہباز حکومت کے لیے معیشت کو سنبھالنا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے