کالم

شہر اسلام آباد کا علمی چہرہ

(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمیں سکھایا گیا ہے کہ پیشگی طور پہ کچھ چیزیں تسلیم کر کے آگے سوچنا ہے ۔ تو اس سے ہماری جو فکری آزادی ہے، آزاد روی ہے، وہ بہت زیادہ متاثر ہو جاتی ہے۔میں ڈاکٹر اقبال آفاقی کا جو سب سے بڑا کارنامہ شمار کرتا ہوں اور یقینا آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ انہوں نے شہر اسلام آباد کے سب سے خطرناک نوجوانوں کو متاثر کر رکھا ہے۔ آپ ان نوجوانوں کی باہم محفلیں اگر دیکھیں ، یہ ایک دوسرے کےخلاف بات کر رہے ہیں۔ یہ دنیا میں خدا سے لے کے انسان تک کسی سے بھی متفق اور مطمئن نہیں ہیں، لیکن اگر ان کا اتفاق ہے ،تو ڈاکٹر اقبال آفاقی کی عظمت پر ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی جو طاقت ہے ان کا علم اور تفکر ہے لیکن اس کےلئے پڑھنا پڑتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی میرے نزدیک جو اس سے زیادہ موثر طاقت ہے، وہ ان کی مسکراہٹ ہے۔ جب بھی کسی موضوع پہ گفتگو شروع کریں گے، آپ سوال کریں گے، آپ پوچھیں گے، استفسار کریں گے تو پہلے وہ سن کے جس طور مسکراتے ہیں، اس طرح صرف وہ شخص مسکرا سکتا ہے، جو جانتا ہو ، جو جانتا ہو اور جو سوچ رہا ہوں کہ اب میں نے یہ جو جواب دینا ہے اس بات کا مناسب، مخاطب کے درجے کے مطابق، مخاطب کی سطح کے مطابق ، میں اس کو کس طرح لاں اور پھر وہ لاتے ہیں۔ یہاں جو خود ڈاکٹر صاحب نے کہا جس سے مجھے اختلاف ہے کہ شاید میں اپنا کام کر چکا ہوں ۔تو بات یہ ہے دنیا کی کوئی محبت مکمل نہیں ہوتی اور کوئی محبوبہ آخری نہیں ہوتی۔ آپ اگر اپنی اس کتاب گنجینہ معنی کا طلسم کو اپنی حتمی تحریر سمجھ رہے ہیں، تو مجھے اس سے اختلاف ہے۔ آپکے دل و دماغ میں ، میں جانتا ہوں مجھے یقین ہے ۔میں یہاں بات کو روک کے ، اپنی اس بات کی وضاحت کےلئے آپکو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں کہ فیصل آباد میں ایک بزرگ نے ہمیں بتایا تو ہم آپکو بتا رہے ہیں،کہ فیصل آباد بار میں، اور یہ وہ دور ہے جب سرخ اور سبز کے نعرے ہوتے تھے، کہ ایشیا سرخ ہے ، ایشیا سبز ، تو اس میں بحث ہو رہی تھی کیمونسٹوں کےخلاف تو ایک بزرگ نے کہا کہ؛ بات یہ ہے کہ کیمونسٹ بہت ہی برے لوگ ہوتے ہیں۔وہ بزرگ آدمی تھا، تو ایک آدمی نے پوچھا کہ؛ حضور آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہیں؟ کہنے لگے ؛ اس لیے کہ میں خود کیمونسٹ رہا ہوں۔تو ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ میں ، میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں کہ سفر، شرارت ، طلسم اور معنی کا کھوج ختم نہیں ہوا۔اگر آپ پوچھیں کہ ایک لفظ میں بتاو¿ں کہ ڈاکٹر صاحب چاہتے کیا ہیں ؟ڈاکٹر صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ہم جو سوچتے ہیں ،جو خیال ہمیں ، تصور ہمیں ،آئیڈیا ہمیں آتا ہے، اس کا آپ ابلاغ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلی دستک ہم لفظ کے دروازے پر دیتے ہیں کہ بھئی یہ کفالت کرو میری اس بات کی۔ اور سو فیصد کفالت کبھی ہوتی نہیں۔ سو فیصد سچ کوئی عاشق بولتا نہیں ہے اور سو فیصد اظہار محبت کوئی کرتا نہیں ، لیکن ڈاکٹر اقبال فاقی صاحب ، ان کی محبت ابھی جاری و ساری ہے ۔اللہ آپ کو صحت دے گا، تندرستی دے گا، اپنی مسکراہٹ کو ، اپنی اس شرارت کو ، جس کا اظہار یہ نوجوان احتراما نہیں کرتے یا کچھ خوفزدہ ہو کر نہیں کرتے ۔اس کو آپ باقی رکھیے گا ۔یہی زندگی ہے ، زندگی سیدھے راستے پہ چلنے کا نام نہیں ہے، زندگی بغاوت کا اور سرکشی کا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے معاشرے کو،جو کہ میں نے کہا قدامت اور روایات کا شکار معاشرہ ہے۔ تو میں اس کو، اصطلاح تو وہ بعد میں آئی ، ابھی آئی ہے،آرٹیفیشل انٹیلی جنس۔ ہمیں ہماری انٹیلی جنس سے علیحدہ کر کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں لایا گیا تھا،حالانکہ انٹیلی جنس تو وہی ہے جو آرٹیفیشل کو بناتی، تخلیق کرتی ہے ۔تو ڈاکٹر صاحب آپ کا جو اصل ہے ،آپکا جو معنی ہے، آپ کا جو مفہوم ہے، آپ کا جو ترسیل معنی پر اصرار ہے وہ آپ کی اصل انٹیلی جنس ہے ۔اللہ آپ کو سلامت رکھے، صحت تندرستی دے اور میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں ایک دوست ہونے کی حیثیت سے کہ آپ بہت ساری کتابیں ہمارے لیے اور لکھیں گے اور اگر آپ مجھے تجاوز کی اجازت دیں، وہ کہتے ہیں نا چھوٹا منہ اور بڑی بات ، تو مجھے اجازت دیں تو میں آپ سے ایک ناول لکھنے کا مطالبہ اور تقاضا کروں گا ۔ آپ صرف اپنی ذہنی روداد رقم کر دیں، وہ اس صدی کا سب سے بڑا ناول ہوگا۔ آپ میرے معاشرے کی دانش کا چہرہ ، آپ میرے معاشرے کی بچے ہوئے سانس ہیں ۔ ان سانسوں کو آپ منقطع نہ ہونے دیں ۔ بہت شکریہ حضور سلامت رہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے