وطن عزیز پاکستان میںجب ایس سی او ، موسمیاتی تبدیلی سمٹ،بیرونی سرمایہ کاری ، مضبوط ہوتی معیشت سمیت حالات بہتری کی جانب گامزن ہونا شروع ہوئے ہیں توہمیشہ کی طرح پاکستان کے دُشمن اپنی ناکام چالیں چلناشروع ہوگئے ہیں۔دہشتگردی کے قلع قمع کے بعد بچے کچے دہشتگردپاکستان دُشمن قوتوں کے ایماءپر اپنی مذموم کارروائیاں کررہے ہیں لیکن پاکستان کی چٹان صفت مسلح افواج دُشمن کے تمام ترہتھکنڈوں کے باوجود تمام سازشیں ناکام بنارہی ہے ۔گزشتہ دِنوں وفاقی اپیکس کمیٹی میں بھی متفقہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر بچے کچے دہشتگردوں کوہمیشہ کیلئے قلع قمع کردیاجائے گا۔پاک فوج اور سیکیورٹی ادارے ہرمحاذ پر امن وامان بحال کرنے اور دہشتگردوںکا صفایا کررہے ہیں ۔اِسی طرح حکومت پاکستان عوام کی ترقی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے ۔جب ملک ترقی کی جانب گامزن ہوچکاہے تو چندسیاسی بونوں کویہ ترقی ہضم نہیں ہورہی اور ایک دفعہ پھر اسلام آبادپردھاوابول رہے ہیں ۔اوراِن سیاسی بونوں کی تاریخ دیکھ لیں جب بھی پاکستان کی بہتری اور ترقی کے اہم مواقع ہوں گے یہ بے تُکا احتجاج اور توڑپھوڑشروع کردیں گے ،سی پیک منصوبے کے آغازکیلئے جب چینی صدر نے پاکستان آنا تھا تب بھی یہ دھرنے کررہے تھے ابھی حالیہ ایس سی اوسمٹ کے موقع پربھی یہی بونے احتجاج کررہے تھے اور اب پھر جب پاکستان کے عظیم دوست جمہوریہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈلو کا پاکستان کا دورہ کررہے ہیں تواِنہوں نے پھر اسلام آباد پر دھاواکا اعلان کیاہو اہے ۔وزیر اعظم اسلامی جموریہ پاکستان محمد شہبازشریف کی دعوت پر جمہوریہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو 25 سے 27 نومبر تک پاکستان کا سرکاری دورہ کرینگے ۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق صدر لوکاشینکو وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے تفصیلی بات چیت کریں گے اور دوطرفہ تعاون کے شعبوں پر تبادلہ خیال بھی کرینگے۔ دورے کے دوران کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے جائیں گے۔ قارئین کرام!پاکستان کی تاریخ میں بہت اُتارچڑھاﺅ آئے لیکن گزشتہ پندرہ سالوں میں جوطوفان بدتمیزی اور توڑپھوڑکاکلچر پروان چڑھا اِس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن کب تک۔آخر کب تک۔ترقی کرتے ملک کو احتجاج اوردھرنوں کی آڑ میں نقصان پہنچایا جائیگا؟ ۔اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے داخلہ محسن نقوی نے خوب کہا کہ احتجاج کو کوئی نہیں روکتا، آپ جہاں ہیں وہاں رہ کر بھی احتجاج کرسکتے ہیں، عدالت میں بھی یہی کہا ہے کہ ہم نے کسی کو احتجاج سے نہیں روکا لیکن اسلام آباد آکر احتجاج کرنا اور وہ بھی ان دنوں میں احتجاج کرنا جب کوئی اہم ایونٹ ہورہا ہے ، عوام فیصلہ کرے کہ یہ اہم دنوں میں احتجاج کیوں کرتے ہیں، انتظامیہ اپنے انتظامات پورے کریگی۔ وزیرداخلہ نے کہاکہ 25 نومبر کو بیلاروس کے صدر آرہے ہیں جن کا 3 دن کا دورہ ہے، ایسا ماحول ہے ہمیں اسی طرح کنٹینر لگا نے پڑینگے اور موبائل فون سروس بھی بند کرنا پڑیگی کیونکہ ریاست کے مہمانوں کی حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا، چیف سیکرٹری اور آئی جی سے روزانہ کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ رہتا ہے، ابھی خیبرپختونخوا سے ایف سی کی 15 پلاٹون کی درخواست آئی ہے، وہ ہمارا صوبہ ہے اسے نہیں چھوڑ سکتے ۔ وزیر داخلہ نے سیکورٹی کے حوالے سے بڑی اہم بات کی کہ ہر احتجاج میں گرفتار ہونےوالے 100 میں سے 25 افغانی نکلتے ہیں، پاکستانیوں کا احتجاج تو سمجھ آتا ہے، افغان کیوں احتجاج کررہے ہیں؟ یقینا احتجاج کرنا ہرکسی کا جمہوری حق ہے لیکن ہرچیزکے قاعدے اور قانون ہوتے ہیں احتجاج پرامن رہ کربھی کیاجاسکتا ہے لیکن اسلام آباد پر دھاوا اور اِس اہم موقع پر ایسے حالات پیدا کرناسمجھ سے بالا تر ہے ۔اِس حوالے سے وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات عطاءتارڑ نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں بڑی خوبصورت بات کی کہ پی ٹی آئی اپنے سیاسی احتجاج کےلئے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے اور اس احتجاج کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہمارے لیڈر کو این آر او دو،جب بھی کوئی غیر ملکی وفد پاکستان آتا ہے تو تحریک انصاف اس وقت ہی احتجاج کی کال کیوں دیتی ہے؟ بیلاروس دوست ملک ہے اور بیلاروس سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں، کیا وجہ ہے کہ جب ہماری معیشت کی بہتری کےلئے باہر سے کوئی وفد آتا ہے تبھی یہ احتجاج کرتے ہیں ؟ کیا یہ ملک دشمن ایجنڈا نہیں ؟ ۔اگر پاکستان میں گزشتہ پندرہ سالوں میں ہونیوالے احتجاج اور دھرنوں کاجائزہ لیا جائے تویہ سب ایسے حالات اور مواقعوں پر کئے جاتے ہیں کہ جب کوئی اہم وفدپاکستان آرہاہوتاہے یا پاکستان کی ترقی سے وابستہ کوئی بڑاایونٹ منعقد ہورہاہوتاہے۔کہیں اس دفعہ بھی احتجاج کی آڑ میں اسلام آباد پردھاوابولا جارہاہے یااِس احتجاج کی آڑ میں کچھ اور پوشیدہ ہے؟کہیں نہ کہیں توکچھ گڑبڑہے ۔