کالم

شیخ سجاد حسین المعروف با سجاد کی یادیں

افرا تفری کے اس دور میں نفسا نفسی کے اس عالم میں جہاں زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے لوگ ایک دوسر ے میں خوشیاں بانٹنے مدد کرنے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی بجائے اپنے انگنو ں کی روشنیوں کیلئے دوسروں کے چراغ بجھانے سے بھی گریز نہیں کرتے یوں لگتا ہے کہ امن واتشی کے پرندے ہمارے منیڈ ھروں سے اڑھ کر کہیں دور جا بسے ہیں اور ان کی جگہ چیلوں اور گد ھ وہاں آبیٹھے ہیں جس طرف نظردوڑ ائیں سراسمیگی اور بیچارگی ہے کوئی دال روٹی کیلئے پریشان ہے تو بہت سے بجلی گیس پانی کے حوشربا بلوں کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ایک وقت کی اگر دستیاب ہے تو وسرے وقت کا فاقہ نظر آتاہے آپ دیکھیں ناں جی کہ ملک میں پولیس بھی ہے عدالتیں بھی قانون بھی ہے اور ادارے بھی لیکن چوری چکاری راہزنی ڈکیتی اور چھینا جھپتی بھی عروج پر ہے کوئی گھر میں محفوظ ہے نہ دفتر دکان میں سرعام دن دہاڑے لوگ لوٹے جاتے ہیں پولیس ان کی تلاش میں نکلے تو ڈاکو پولیس والوں کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے خبریں چلتی ہیں کے اتنے پولیس والے ڈاکوں نے مقابلے کے دوران شہید کردیے مگر پولیس اپنے پیٹی بھائیوں تک کا بدلہ لینے سے قاصر نظر آتی ہے سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ ڈکوں چوروں راہزنوں کی فصل ایک دم کیسے تیا ر ہے گئی اور کیوں اس فصل کو فلاح معاشرہ اور عوام کے تحفظ کیلئے کاٹا نہیں جارہا اور غربت مہنگائی بے روزگاری کے جن پر قابو پا کر عام آدمی کو ریاستی ثمرات کیوں فراہم نہیں کیے جارہے تو جنہیں جواب دینا ہے وہ تو ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے اپنی حکومتوں کا عرصہ طویل اور مضبوط کرنے اپنے اثاثے بڑھانے اپنی نئی نسلوں کو ہم پر حکمرانی کیلئے تیار کرنے میں مصروف ہیں اور عوام حکومت اور ادارے ہو نے کے باوجود بے اسرا اور یتیم نظر آرہی ہے ایسے میں اگر کوئی عام آ دمی کے دکھ سکھ سمجھنے ان کی مدد امداد کرنے انہیں پیار دینے خوشیاں بانٹنے والا کوئی رہ جاتا ہے تو وہ ہیں صاحب ثروت لوگ جنہیں اللہ تعالی نے ان کی ضرورتوں سے زیادہ نواز کر اس مقام پر پہنچا رکھا ہے کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد مستحقین ضرورت مندوں اور ناداروں میں بانٹ کر ان کیلئے زندگیاں اسان کرنے کا نیک عمل کر سکتے ہیں لیکن دیکھا جاے تو ایسے لوگ بھی اب کم رہ گئے ہیں مگر پھر بھی خال خا ل موجود ضرور ہیں جو اس گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن اور اللہ کی رحمت بنکر لوگوں میں خوشیاں بانٹنے اسانیاں پیداکرنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کررہے ہیں اور ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک خوبصورت رو ح باسجاد حسین تھے جو تمام عمر لوگو ں میں آگے بڑھنے حوصلہ دینے خوشیاں بانٹنے راحتیں تقسیم کرتے بڑے اطمینان کیساتھ گزشتہ دنو ں اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچ گئے نام تو ان کا شیخ سجاد حسین تھا اور وہ وزیرآباد کی شیخ بلادری کا روشن نام تھے لیکن لوگوں کیساتھ شفقتیں پیا ر مہر بانیاں اور خدا ترسیاں کرنے کی وجہ سے لوگ انہیں با سجاد حسین کہہ کر پکارتے تھے با جی نے ساٹھ کی دہائی میں بنگلہ منڈی گجرات سے سرخ مرچ کا کاروبارشروع کیا نیت نیک اور اردے پاک تھے تو دنوں میں ہی وہ گجرات کے بڑے تاجروں میں شمار ہو نے لگے کاروبار پھیلا تو گجرات کی منڈی انہیں چھوٹی محسوس ہونے لگی اور وہ فیصل آباد کی منڈی پہنچ گئے اور یہاں بھی اس قدر عروج پایا کہ بڑے بڑے گودام نوکر چاکر منشی سب کچھ کم پرنے لگتا تھا با جی محض تاجر ہی نہیں تھے تجارت تو ان کا شعبہ تھا لیکن ان کے کئی روپ دوسروں کی نظروں سے اوجھل تھے با جی شروع سے ہی اپنے اردگرد اور غریب بے روزگار لوگوں پر توجہ کرتے تھے چینی کہاوت ہے ناں کہ اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہو تو اسے مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا ہنر دے دو تو وہ خود بھی مچھلیاں تقسیم کرنے کے قابل ہوجائیگا اور یہی کام با جی کا وطیرہ تھا وہ اپنے سرماے سے لوگوں کو کاروبار کراتے کاروباری راز اور طریقے بتاتے اور پھر کامیاب تاجر کی حثیت سے اسے مارکیٹ میں بیٹھا دیتے اسی طرح انہوں نے انگنت لوگوں کو کاروبار میں لا کر کروڑپتی بنایا یہی نہیں بلکہ با جی پرندوں اور انسانوں کی دعوتیں کرنے کے بھی شوقین تھے انکے وسیع دسترخوان پر مسافر اجنبی غریب مہمان ہوتے جنہیں وہ بری چاہت سے کھانا کھلانے اور مالی امدادا کرکے خوشیاں بانٹتے پرندوں کی دعوتوں کیلئے بھی انہوں نے ملازم رکھے ہوئے تھے جو ان کی نگرانی میں پنجرے گھونسلے صاف کرتے دانا ڈالتے با جی کو پتہ نہیں کہا ں سے علم ہوجاتا تھا کہ کون سے گھر میں غریب کی بیٹی کو جہیز اور سفید پوش کے بچوں کیلئے اعلی تعلیم کے اخراجات کی ضرورت ہے وہ بڑی رازداری سے یہ فریضے انجام دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ مستحقین کے گھروں میں خشک راشن پہنچاتے اور یوں پتہ نہیں کہ وہ کتنی بچیوں کے جہیز اور طلبا کے تعلیمی اخراجات برداشت کر کے انہیں معاشرے کا اچھا انسان بنا کر ان کی عزتیں بحال کرچکے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالی غیب سے ان کے رزق اور کاروبار میں برکت ڈال کر انہیں کامیاب سے کامیاب ترین بنائے رکھتے با سجا د نے اپنے نیک عمل کو اپنے چھوٹے بھائیوں طارق محمود المعروف مودی شیخ اور فیصل بادشاہ کے علاوہ اپنے بچوں فرقان قرنی اور محمد حارث تک بھی پہنچایا اور مودی شیخ اور فیصل بادشاہ لندن میں اپنے غریب ہم وطنوں ضرورت مندوں کیلئے طعام قیام نوکریوں اور دیگر ضرورتومیں مگن رہ کر با سجاد کے مشن کو اپنے سٹائل سے آگے بڑھا رہے ہیں با سجاد اپنی زندگی کی کامیاب انگیز کھیل کر ہم سے بہت دور جا چکے ہیں مگر ان کی خوبصورت یادیں ان کی مہربانیاں ان کی شفقتیں ان کاپیار ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا اور جب ان کا زکر ہو گا انا کا مسکراتا ہوا چہرہ ہما ری یادوں میں نظر آئیگا با جی کی رحلت کا صدمہ محض مودی شیخ فیصل بادشاہ فرقان قرنی محمد حارث اور دیگر عزیزواقارب کیلئے ہی نہیں ہم سب کیلئے ہے اللہ تعالیٰ با جی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے