کالم

صحافت مداریوں کے حصار میں

صحافت ایک مقدس پیشہ اور بہترین راہ ہے۔ اس راہ میں جو قلم چلتا ہے اس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے۔ حق و سچ کے سفر پرچلنے والا قلم ایک معتبر ہتھیار،جو جب بھی چلا، معاشرے کی کایا ہی پلٹ کررکھ دی۔ معاشرے سے ظلم و زیادتی کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ظالم اور جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق بیان کرنے کا حوصلہ عطاکیا۔ یہ قلم جب جب بھی چلا، تخت و تاج تک ہلا کررکھ دئیے۔ظلم کے جلتے چراغ نیست و نابود کردئیے۔ برائی کا قلع قمع کرتے خیر کی ہوا چلا دی۔شر کے سامنے ڈٹ گیا، غلط لوگوں کے خلاف جب بھی چلا، آندھی اور طوفان سے بھی زیادہ اثر کیا اور وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا اور بلند مرتبہ پایا۔ دنیا بھر میں جتنی بھی کامیابیاں اور ترقیاں نظر آتی ہیں قلم ہی کے دم سے ہیں۔ اقراءسے شروع اس سلسلے کو دوام قلم سے ملا۔ قلم کی حرمت و عزت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔ دنیا شاہد ہے کہ جس نے بھی قلم کو تھاما، دنیا میں عزت پاگیا اور جس نے بھی اس سے روگردانی برتی، ذلیل ہی ہوا۔ قلم سے عظیم لوگوں کی داستان لکھی گئی ہے اور اسے بام عروج پر پہنچانے کا سہرا قلم ہی کوجاتا ہے۔ اس قلم نے حق و سچ کا لکھا ہوا اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ حق لکھنے والوں پر رحمت برستی ہے اور جھوٹ لکھنے والے کےلئے ذلت ہی ذلت ہے۔ اس قلم نے ہی دنیا کو وہ عروج بخشا ہے کہ ایک صحافی بھی قلم کا رکھوالا ہے اور اپنے تئیں جس حد تک ممکن ہوتا ہے حق و سچ کا پرچار کرتا ہے۔ وہ ممکنہ سچائی بیان کرتا ہے۔ صحیح بات اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چہ جائیکہ اس میں تکلیفیں بھی اٹھاتا ہے مگر اس فریضہ کو ادا کرتا ہے۔ نہ بکتا ہے نہ جھکتاہے۔ قلم کی حرمت کا پورا پورا خیال رکھتا ہے۔ یقینا یہ ایک عظیم کام ہے۔ وہ بھی کیا سنہری دو¿ر تھا جب ایسے قلم سے محبت کرنے والے لوگ ہوا کرتے تھے۔ایسے دور میں کچھ بلیک میلرز قلم کی حرمت کے برعکس غلط انداز اپنائے، شریف افراد کی پگڑیاں اچھالے، پیسہ چھاپ ، پیسہ بنا¶ طریقہ اختیار کرتے تھے مگر تب معاملات صرف یہیں تک ہی ہوتے تھے مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ صحافت میں اب افراد نوٹ بنانے لگے ہیں۔ مختلف طریقے حربے انداز اپنا کر پیسے ہتھیانے لگے ہیں۔ مختلف ایوارڈز،کتاب فراڈ شو، لگائے دیہاڑیاں بنانے لگے ہیں۔لکھاریوں کو چکر دئیے، گھن چکر کھیل فلمائے ہوئے ہیں۔ علم و ادب کی آڑ لے کر اپنے اپنے فراڈ طریقے ، حربے مختلف نت نئے کھیل رچائے ہوئے ہیں۔ ایوارڈ کے نام پر کتاب کے تین نسخوں کی وصولی،لکھاریوں کو الٹے سیدھے جھانسے دے کر بھاری پیسے لے کر کتاب چھپوا کر دینا،اس میں سے کتنی کتب کھاجانا،پھر اپنی کتاب فراڈ میں رائٹر کی تحریریں لگا کر رائٹرز کو انعامات کے جھانسے دے کر خریدنے پر مجبور کردینا،ان کو پبلسٹی کا لالچ دینا اور بہت سے دیگر حربے اپنائے ہوئے ہیں مگر یہ لوگ خدمت کے نام پر محض صرف اپنا پیٹ بڑھائے ہوئے ہیں۔ چاپلوسوں ، خوشامدیوں ، مفادپرستوں کی انجمن آباد کئے خود ساختہ تنظیمات کے خود ساختہ کرتادھرتا بنے انتہائی شرمناک صورتحال اختیار کئے خود ساختہ ایوارڈ شیلڈ میڈل اسناد عجب ڈرامہ کہانی اور کتاب فراڈ سیریز جیسی فریب کہانی چلائے ہوئے ہیں۔افسوس رائٹر ہیں کہ یہ بات سمجھنے سے عاری ہیں کہ یہ کھیل دراصل ہے کیا؟ انتہائی مہذب انداز اپنائے صحافت کالبادہ اوڑھے ایک عطائی ڈاکٹر کی طرح ٹیکنیکل اور مکارانہ طریقہ اور چھپن چھپائی کھیل انداز اپنائے ہوئے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ فراڈ لوگ As a Publisher رجسٹرڈ ہونے کا اشتہار یونہی بطور کمال چلائے ہوئے ہیں۔ان میں سے کئی رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں،خود عطائی اور جعلی تنظیم بنائے ہیں، اس ضمن میں کیا کیافرمائے ہوئے ہیں۔ کئی خواتین کو بھی اپنا ہمنوا کیے معزز بنے بیٹھے ہیں، صحافت ان جعلی لٹیروں کے ہاتھوں لٹ گئی ہے، صحافت کی قسمت دیکھیے کہ کبھی اس کا حال کتناشاندار ہوتا تھا۔کیا عظیم مصنف ہوتے تھے۔ایڈیٹروں کاانتخاب بھی بہت اعلیٰ ہوتاتھا مگر اب حال یہ ہے کہ صحافت کاحال لٹے پٹے قافلے جیسا ہوگیا ہے جس کے پلے کچھ بھی نہیں رہاہے۔ نان پروفیشنل صحافی اس میں چھا گئے ہیں،دوسری طرف ایک ایسا ٹولہ صحافی بنا بیٹھا ہے جس کا صحافت سے صرف نام اور مفادات کی حد تک تعلق ہے مگر یہ خود کو پکے سچے صحافی کہلوانے اور لکھوانے پر مصر ہیں، حتی کہ پریس کلب کی رکنیت کے لیے پر تولے بیٹھے ہیں اور اس کے لیے جینوئن یا پریس کلب ممبرز سے دوستیاں پالے ہیں۔ صحافت چند ایک کو چھوڑکر، مسلسل لٹیروں کی زد میں ہے اور وہ اسے ٹھگ بنے،من مرضی کا مرچ مصالحہ لگائے، مختلف ترغیبات ولالچ دئیے ایوارڈ میڈل کی بھرمار کئے، مسلسل انعامات کے جھانسوں میں نوچ رہے ہیں اور ہم قلمکار ان کا آسان ہدف ہیں،اس کھیل کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس کھیل میں یہ مسلسل دوسروں کو لوٹ رہے ہیں اور خود سے بھی نام و نمود اور عزت و ساکھ لٹا رہے ہیں۔افسوس لکھاری ان کے اس لوٹ مار کے کھیل میں لٹنے سے بچ نہیں رہے ہیں۔ افسوس صحافت میں ٹھگوں کا ایک جہاں آباد ہو چکا ہے،صحافت حال و بے حال پڑی ہے اور پرسان حال کوئی بھی نہیں ہے۔جنہوں نے پرسان حال کرنا ہے وہ دم سادھے پڑے ہیں،ان کے سر پر ”ایک ایوارڈ اور“نیز شہرت سوار ہے، جھوٹی اور جعلی شہرت، سب کو پتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں اور کتنے بڑے تخلیق کار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے