کالم

صفائی کا جدیدنظام وضع کیاجائے

ajaz-ahmed

خیبر پختونخوا کے کئی وزیر اقتدار میں آئے مگر بد قسمتی سے کسی موصوف نے گند کو ٹھکانے لگانے اور گند کےلئے زمین خریدنے کی طرف توجہ نہیں دی ۔ میرا تعلق ضلع صوابی سے ہے اور صوابی میونسپل کمیٹی کا زیادہ گند بدری نالا یا طوطالئی میں اور انکے قریب کھلے میدانوں میں پھینکا جاتا ہے ۔جس سے صا ف پانی گندہ ہوجاتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا صوابی خاص کے ان دو پانی کے نالوں میں زنانہ کپڑے دھوتے تھے اور اسکا پانی پیتے تھے مگر اب ان پانی سے انتہائی بد بو آتی رہتی ہے ۔ اگر ہم غور کریں تو تر قی یا فتہ اقوام کی آبادی دنیا کا 22 فیصد ہے ۔ مگر یہ انتہائی اہم بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں میونسپل ویسٹ یا گند بُہت زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ وہ دنیا کی 60 فیصد چیزیں استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں زیادہ مقدار میں گند پا ئی جاتی ہے ۔مثلاًً امریکہ اور کنیڈا میں فی کس جو گند پیدا ہوتی ہے وہ 2.04کلوگرام ہے جبکہ اسکے بر عکس ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں فی کس گند 0.450 کلو گرام یا 450 گرام ہے۔یعنی وطن عزیز میں فر د آدھا کلوگرام تک گند مختلف چیزوں کے استعمال سے پیدا کرتے ہیں۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں گند یا میونسپل وسیٹ کو معقول طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی خا ص پروگرام نہیںجسکے نتیجے میں وطن عزیز میں مختلف قسم کی بیما ریاں پیدا ہو رہی ہیںجس میں کم وزن بچوں کا پیدا ہونا ، کینسر، بچوں کے پیدائش کے دوران نقائص،اعصابی بیما ریاں ، اُلٹی قے، ہیضہ، سونگھنے کی حس کی کمی اور اسکے علاوہ دیگر بُہت ساری بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ تمام بیما ریاں گند سے پیدا ہو تی ہیں۔اگر ہم مزید تجزیہ کریں تو گند کی وجہ سے زمین پر مختلف قسم کے وائرس اور بیکٹیریا اور کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں جس مختلف قسم کی بیماریا ں پھیلاتے ہیں۔ان میں مکھی، مچھر، چوہے اور کاککروچ نشو و نما پا تے ہیں۔ ماہریں کا کہنا ہے کہ ایک مکعب میٹر گند میں 8 لاکھ مکھی پیدا ہو تی ہے اور یہ جو جرا ثیم پیدا کرتے ہیں وہ پیچش ، ہیضے ، اُلٹی، قے، اور دیگر پیچیدہ بیماریاں پیدا کرتی ہیں ۔ چوہوں کی وجہ سے طا غون جیسی وبائی امراض پھیلنے کا خد شہ ہوتا ہے۔اسی طرح مچھروں سے ملیریا، ٹائیفائیڈ، ڈینگی، ہیپا ٹا ئٹس بی اور سی کو ایک انسان کو کاٹ کر دوسرے انسان میں منتقل کرنے کا فریضہ بھی ہمارے مچھر سر انجام دیتے ہیں۔اگر ہم مزید غور کر لیں تو زمین پر گند جس میں پلاسٹک ، پٹرول شیشے ، سکہ، کیڑے مار اور جر اثیم کُش ادویات کی وجہ سے زمیں کو بُہت نقصان ہوتا ہے۔جب ہم پلاسٹک کو زمیں پر پھینکتے ہیں تو اس سے زمین کی زر خیزی ختم ہو جا تی ہے۔اسی طرح غلط طریقوں سے پلا سٹک کے جلانے سے سانس کی بیما ریاں ، الر جیز ، دل کی بیماریاں ، آنکھوں کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اسی طرح جب ہم کچن ویسٹ یا دوسری گند پھینکتے ہیں تو اس سے میتھین یا زہریلی جلنے والی گیس اور کا ربن ڈائی آکسائیڈ ، ایمو نیا ، نا ئٹروجن دنوں انسانوں ، جانوروں اور حشرات الرض کےلئے خطرناک ہے ۔ اس سے تمام جانداروں کو نُقصان پہنچتا ہے بلکہ اس سے ما حولیاتی تغیر بھی ہوتا ہے۔ جب ہم مختلف قسم کے گند کو زمین پر اسطر ح پھینکتے ہیں اور اسکو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگاتے تو اس سے پیدا ہونے والے مختلف قسم کے کیمیکلز زمیں کے اندر پانی کو خراب کرتے ہیں جو انسانوں ، خیوانات اور پرندوں سب کےلئے مضر اور نُقصان دہ ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زمین پر موجود گند کو کس طرح ٹھکانے لگا یا جائے ۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو گند کو ٹھکانے لگانے کےلئے 6 طریقے ہیں جس کو استعمال کر کے ہم رو زانہ جو گند پیدا کرتے ہیں آپ اسکو ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔ اس میں گند کو ٹھکامے لگانے کا جو طریقہ ہے اسکو لینڈ فل کہتے ہیں ۔ اس طریقے میں سمندر کے کنارے زمین میں بڑے بڑے کڑھے کھودے جاتے ہیں ۔ میونسپل ویسٹ یا گند میں پلاسٹ لوہے اور شیشے کو علیحدہ کر کے با قی گند کو اس کھڈوں میں ڈالا جاتا ہے اور جب یہ کڈھے بھر جا تے ہیں تو اسکے اوپر مٹی ڈال کر بولڈو زر سے سیدھا کیا جاتا ہے۔دوسرا طریقہ اسکو جلانے کا ہے جلانے سے اسکی حجم میں 20 سے لیکر 30 فیصد تک کمی آجاتی ہے۔تیسرا طریقہ گند میں مختلف قسم کی اشیاء لوہا ، پلا سٹک ، اور دوسری کا ر آمد چیزیں اس سے علیحدہ کی جاتی ہیں اور دابارہ استعمال کے قابل بنائے جاتے ہیں ۔ اس طریقے کو Recycling کہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں گند میں کچن ویسٹ نکال کر اس سے بہترین قسم کی بائیو گیس بنائی جا سکتی ہے۔کیونکہ میونسپل ویسٹ جو ہم پھینکتے ہیں ان میں 45 سے 60 فیصد تک میتھین ہو تی ہے جو سوئی گیس کی طرح جلانے کے کام آتی ہے۔ علاوہ ازیں اس گند کو با ریک با ریک پیس کرکے پودوں اور درختوں کو خوراک اور کھاد کے طور پر دی جاتی ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ تحصیل، ضلع ، یونین کو نسل کی سطح پر گند کو ٹھکانے لگانے کا نظام بنانا چاہئے تاکہ ایک صحت مند معا شرہ قائم ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri