گذشتہ روز بابو صابو چوکی انچارج سیف اللہ نیازی کو اسکے پرائیوٹ ملازم (کار خاص ) نے اسی کے پستول سے گولی مار کر قتل کردیا ملزم عدیل نے بتایا کہ مقتول انسپکٹر بدتمیز اور معمولی بات پر گالیاں نکالتا تھاجسکی وجہ سے اسے قتل کردیا بدقسمتی سے یہ رویہ صرف ایک پولیس والے کا ہی نہیں بلکہ ہماری پوری پولیس کا یہی کلچر ہے اور اس کلچر میں رہتے ہوئے اس وقت سفارش ،رشوت ،بددیانتی ،لوٹ مار ، بدمعاشیاں،قتل وغارت اور پرتشدد کاروائیوں میں اگر کوئی محکمہ سب سے آگے ہے تو وہ پولیس کا محکمہ ہے جن کے تھانے عقوبت خانے اور ملازمین دہشت کی علامت ہیں اس محکمہ کے بارے میں عوامی رائے لیں تواکثریت انکے گندے کردار کی وجہ سے نہ صرف ان سے نفرت کرتے ہیں بلکہ انکے ملنے جلنے والوں کو بھی برے الفاظ میں یاد کرتے ہےں عوامی رائے کو چھوڑیں اسے کوئی مانتا ہے اور نہ ہی کوئی تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی کہیں عوام کی عزت ہے محکمہ انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے 2010 پنجاب پولیس کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں صوبے کا سب سے کرپٹ عوامی محکمہ قرار دیاتھااس رپورٹ کے مطابق پولیس فورس کے ارکان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جسکی انہوں نے بہت سی مثالیں بھی دیںجنہیں پڑھیں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے غنڈے ،بدمعاش اور رسہ گیر پولیس کی سرپرستی میں یا پھر انکے ظلم وستم کے بعد ہی پروان چڑھتے ہیں محکمہ انٹی کرپشن کی کی پولیس کے بارے میں درج کردہ چند رپورٹس لکھ رہاں ہوں باقی آپ خود ان کے بارے میں اندازہ لگالیں نومبر 2017 میں فیصل آباد میں پولیس نے ایک شخص کو قتل کر دیا گیا جسے ڈاکو بنا کر پیش کیا گیا وہ ایک غیر مسلح شہری تھا جس کا گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی رشتہ دار کے ساتھ معاشقہ تھا اورپولیس افسر نے اسے گولی مار کرقتل کر دیا ،20 نومبر 2017 کو پنجاب پولیس کے دو افسران نے ایک خاتون کے کپڑے پھاڑکر ویڈیو بنائی اسے بلیک میل کیا اورپھر ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئرکردی فیصل آبادمیں ہی پولیس نے ساتھی پولیس افسر کی بیوی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اسی طرح بہاولپور پولیس نے ایک 12 سالہ بچے کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اس کے والد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے جس کا نام ایف آئی آر میں شوگر مل میں گنے کی قیمت کے تنازع پر درج کیاگیا تھااور لڑکا اپنی سکول کی کتابیں بھی جیل لے آیا رحیم یار خان میں اے ٹی ایم پر منہ چڑانے والے ذہنی معذور شخص کے ساتھ پولیس نے جو کیا وہ بھی یاد ہوگا اور پولیس مقابلوں میں بندے پار کرنے کا جو ہنر ہمارے شیر جوانوں کے پاس ہے وہ بھی عابد باکسر نے کھلے دل سے بتا دیا ہے اور پھر اسکے ساتھ جو ہوا وہ بھی اخبارات کی زینت بن چکا ہے پولیس وردی میں چھپی کالی بھڑوںکے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت کو مدنظر رکھتے ہوئے 2017 میں پنجاب پولیس نے کالی شرٹ اور خاکی پینٹ پر مشتمل اپنی معیاری یونیفارم کو تبدیل کر دیا جسے خان قربان علی خان کے حکم کے تحت جی ایم چودھری اینڈ سنز (1916 سے سرکاری ٹھیکیداروں) نے ڈیزائن کیا تھا یوں وردی کا رنگ زیتون سبز کر دیا گیا لیکن پولیس والوں کے رویہ میں تبدیلی نہ آئیاس وقت پنجاب میں 737،سندھ میں1046،خیبر پختونخوانہ میں 511، بلوچستان میں383گلگت بلتستان میں 104اور اسلام آباد میں25تھانے موجود ہیں ان میں سے گلگت بلتستان کے اکثر اور خیبر پختونخوان کے چند ایک تھانے نکال کر باقی سب کے سب دہشت کی علامت ہیں جہاں جرائم کو ختم نہیں بلکہ پروان چڑھایا جاتا ہے جہاں عام لوگوں کے کپڑے اتار کر انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے انہی تھانوں میں ایسی ایسی گندی اور غلیظ گالیاں اتنی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نکالی جاتی ہیں کہ سامنے والے کے کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہوجاتا ہے ہمارے یہ تھانے موجودہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے بہت حد تک تبدیل کروادیے ہیں جہاں شادی شدہ جوڑوں کو بلوا کرفوٹو سیشن بھی کروائے گئے تاکہ لوگوں کے اندر جو نفرت ہے اسے کسی حد تک کم کیا جاسکے لیکن آئی جی ان کوششوں پر پولیس والے پوری کوششوں سے پانی پھیر رہے ہیں کہ عوام میں نفرت کا سلسلہ یونہی بڑھتا رہے میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی چند پولیس افسر اس محکمہ میں موجود ہیںجنکی وجہ سے لوگ اس محکمہ کی عزت کرتے ان میں شوکت عباس ،خرم شکور ،فیصل کامران،آصف بہادر اور شاہد خان چدھڑ سمیت چند اور افسران شامل ہیںاور یہ سب کے سب طاہر انوار پاشا اور شیخ اسرار احمد (مرحوم )کے جانشین ہیں جوپولیس کی عزت بحال کرنے میں پوری کوشش کررہے ہیں لیکن جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں نیک نام اور محنتی افسران کی کوشش بھی رائیگان جاتی ہے لیکن یہ لوگ اس چڑیا کی مانند ہیں جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لیکر اس آگے کی طرف دیوانہ وار بھاگی جس میں حضرت موسی علیہ اسلام کو پھینکا گیا تھا شائد اسی لیے ان افسران کی نیک نامی ،محنت اور حب الوطنی کا اثر انکی اولادوں میں نمایاں نظر آتا ہے جبکہ گندے لوگوں کا اثر بھی انکی اولادوں میں دور سے نظر آجاتا ہے اس وقت اگر پنجاب پولیس کی بات کریں تو پنجاب بھر کا کوئی بھی تھانہ ایسا نہیں جسے ہم مثالی کہہ سکیں پنجاب کے دور دراز علاقوں کو تو چھوڑیں وہاں پر پولیس کا ظلم کیا رنگ لیے ہوگا آپ لاہور کے کسی ایک تھانے کو دیکھ لیں جہاں وزیر اعلی سے لیکر نیچے تک ہر سطح کا افسر موجود ہے لیکن پھر بھی تھانوں میں تشدد نہ صرف ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے کسی بھی تھانے میں بند ملزمان کا میڈیکل کروالیں ایک بھی بندہ بغیر تشدد کے نہیں ملے گااور اس دوران جو جو گالیاں اس نے زندگی میں نہیں سنی ہونگی وہ ہر وقت اسے نہ صرف سننے کو ملیں گی بلکہ اسکے علاوہ اور بھی بہت کچھ باغ جناح کے سامنے ایک طرف پولیس کلب ہے جہاں پولیس افسران رہتے ہیں اور ساتھ ہی لاہور چیمبر آف کامرس ہے اور ساتھ ہی تھانہ ریس کورس اور سول لائن ہے جہاں ہر وقت گالیوں کی گردان سننے کو ملتی ہے اور رات ہوتے ہی تشدد کی نئی نئی قسمیں دریافت ہوتی ہے اس وقت ڈاکٹر عثمان انورپنجاب پولیس کے 59ویں آئی جی ہیں جو فراغ دل ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس میں مثبت تبدیلیاں بھی چاہتے ہیں اسی لیے تو انہوں نے گندی اور غلیظ گالیاں دینے والے شاہد جٹ کو بھی گلے لگا کر معاف کردیا لیکن کچھ لوگ الٹ ذہن کے ہوتے ہیں جوگالیاں اور بے عزتی برداشت نہیں کرتے بلکہ بدلے کی آگ میں جلنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر نتیجہ سیف اللہ نیازی کے قتل کی صورت میں نکلتا ہے سیٹھ عابد پاکستان کی مشہور شخصیت ہے اسکی تمام اولاد میں سے ایک بیٹا ہی جسمانی اور ذہنی طور پر ٹھیک تھا لیکن اسے بھی اس کے ہی سیکیورٹی گارڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا وجہ بے عزتی تھی جو اس سے برداشت نہیں ہوئی اس لیے اپنے عہدہ اور رتبہ کی وجہ سے عوام میں اچھا مقام بنائیں آج سیٹ پر ہیں کل نہیں ہونگے تو کوئی آپ کو منہ نہیں لگائے گا وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور آپکی مدت ملازمت ختم بھی ہوجائیگی لاہور کے سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ بھی انتہائی محنتی افسر ہیں مجھے انکی پہلے دن پولیس میں آمد آج بھی یاد ہے ساہیوال میں ایس ایس پی حامد مختار گوندل صاحب ہوا کرتے تھے ان جیسا اچھاپولیس افسر میں نے آج تک نہیں دیکھا اس وقت میں ساہیوال میں صحافت کرتا تھا اور گوندل صاحب سے بہت پیار تھا وہ بھی چھوٹے بھائیوں کی طرح لاڈ کیا کرتے تھے کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا کہ دن کے دو یا تین گھنٹے انکے ساتھ نہ گذرتے ہوں ایک دن میں اور گوندل صاحب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ بلال صدیق کمیانہ صاحب اندر داخل ہوئے اور گوندل صاحب کو اپنے بارے میں بتایا تب مجھے علم ہوا کہہ اس نوجوان کا آج پولیس میں بطور اے ایس پی (انڈر ٹریننگ)آج پہلا دن ہے وقت گذرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور آج کمیانہ صاحب سی سی پی او لاہورہیں اور حامد مختار گوندل صاحب ڈی آئی جی بن کر ریٹائر ہوئے اور پھر اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگئے اس لیے پولیس میںرہتے ہوئے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ورنہ بعد میںپچھتانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا۔