کالم

طوفان بدتمیزی

a r tariq

پچھلے دنوںسابق وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں امریکن سازش اور ریشہ دوانیوں کا ذکر تھاکہ دوران خطاب شرکاءمحفل میں سے کسی نے زور زور سے ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے”کا نعرہ لگانا شروع کر دیا ۔ عمران خان جو ایک اہم موضوع پر تقریر کر رہے تھے کو یہ بات ناگوار گزری کہ میری تقریر ہو رہی ہے اور یہ شخص جذبات کی رو میں بہہ کر نعروں کی طرف ہوگیا ہے کچھ اور سن ہی نہیں رہا تو دوران خطاب انتظامیہ سے اس شخص کو ایسا کرنے سے روکے جانے کو کہا ۔ عمران خان کا ایسا کہنا ہی تھا کہ عمران خان کی اس بات سے مخالف حلقوں میں ایک بھونچال سا آگیا ۔ طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا ۔ واٹس ایپ، انسٹاگرام تک عمران کردارکشی میں کالے ہوگئے۔مخالفین نے تقریب میں امریکہ مخالف نعرے لگنے پر عمران کی اس پرخفگی اور ناراضگی پر بےشمار باتیں کی،فقرے کسے،عمران اوقات کیا؟ بتائی ، یوتھیے کہا،منافق انسان بولا، الغرض یہ کہ جس کے منہ میں جو آیا،بولتا رہا،بولتا گیا،سب سے بڑھ کر اس خطاب اور بات کی ویڈیو بھرپور شیئر کی گئی، مجھ تک بھی بذریعہ واٹس ایپ یہ ویڈیو پہنچی،ویڈیو پر موجود عنوانات یہ تھے ”امریکا کا جو یار ہے غدار ہے ” ”یہ نعرہ سنتے ہی عمران خان کو غصہ چڑھ گیا ” ”منافق انسان ”کا ٹائٹل دیا گیا،اور مزید بتایا گیا کہ ”یوتھیو! یہ ٹوٹل اوقات ہے تم لوگوں کی”۔یہاں تک کہ گروپ میں موجود ایک انتہا پسند، جنونی شخص کو یہ بھی کہتے پایا گیا کہ”ایک جاہل ذہنی غلام یوتھیے کو دیا گیا چورن بہت ہی اثرکر گیا، اس منافق کی حالت دیکھیں۔”تو مجبوراً مجھے اس بات نے لکھنے پر مجبور کر دیااور اس بات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا موقع فراہم کر دیا ۔ افسوس ہماری ذہنی پسماندگی کی انتہا دیکھئے کہ ہم ہر بات اور واقعے کو غلط رنگ دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ہر بات میں کیڑے نکالنا ہماری فطرت بن چکی ہے۔ہر بات کو من مرضی کا لبادہ اوڑھنے کی کوششوں میں ہیں ۔ اپنے مخالفین کو لتاڑنے کی کسی کوشش سے ہاتھ کھینچنے نظر نہیں آتے ۔میں ہی اچھا اور میری جماعت ہی اعلی کی سوچ لئے دوسروں کو غلط ثابت کرنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ساری معاشرتی قدروں کو پامال کئے محض ایک شخص عمران خان کی نفرت میں ہلکان سے ہوئے پڑے ہیں ۔ ذرا سا بھی نہیں سوچتے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو ایسے نعروں کی ہرگز کوئی ضرورت نہ ہے بلکہ اپنے قول و فعل سے ایک ہونے کی ضرورت ہے ۔ ملک پاکستان کو ایسے نعروں نے کچھ نہیں دیا سوائے ضلالت و شرمندگی کے۔ ” قائد تیرے جانثار بے شمار بے شما ر” ”حاضر حاضر لہو ہمارا ” ”قائد کا جو غدار ہے موت کا حقدار ہے” ” تیری پاور میری پاور ”جیسے نعروں نے پاکستان کو دیار غیر میں کہیں کا نہیں چھوڑا،شرمندہ و شرمسار ہی کیا ہے۔ پاکستان ایسے بے تکے، فضول مشق، خوامخواہ نعروں کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتااور پھر ایسے میں جبکہ ہم امریکی غلامی میں ڈھیر ہو چکے ہواور ہمارے نعرے غدار غدار کے اراگ الاپ رہے ہو۔ زندگی عمل سے بنتی ہے باتوں اور نعروں سے نہیں، قوم یقین سے بنتی ہے الفاظ اور ان کے گورکھ دھندوں سے نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ نعرے مارتی قومیں اورافراد کسی کیلئے کبھی بھی اچھے ثابت نہیں ہوئے،اپنے گھر والوں سے لے کر اپنے دیس والوں تک کےلئے عذاب ثابت ہوئے۔ملک پاکستان میں دیگر ریاستوں کے خلاف نعروں کی گنجائش بالکل نہیں نکلتی،ایسے جذباتی نعرے لگانے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے کہ ایسے نعرے لگا کر ملکی ماحول خراب کرتے ہیں اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا۔بحیثیت راقم الحروف ایسا اپنے تجربے کی بنیاد پر بھی کہہ رہا ہوں،وہ اس طرح کہ میں نے اپنی ساری زندگی جماعت اسلامی میں گزار دی،متحدہ مجلس عمل میں بھی رہا، شاید ہی کوئی امریکا مخالف جلسہ، جلوس، ریلی، اجتماع چھوڑا ہو ، مگر آج سب کچھ سمجھ آ جانے پر سیاسی و مذہبی جماعتوں سے نالاں ہوں اور ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کی دو رنگی،منافقت اور دہرے معیار کو دیکھتے پرکھتے سمجھتے ان کو یکسر چھوڑے تمام تر امریکہ مخالف جذبات و خیالات رکھتے ہوئے بھی اس مقام پر پہنچا ہوں کہ ”اس سے کنٹرول پلیز”اور یہ بات اپنی ساری زندگی سیاسی و مذہبی جماعتوں میں رہ کر اپنی زندگی،اپنا کیریئر تباہ کرنے کے بعد سمجھ آئی۔ملک پاکستان میں جہاں تک میں نے دیکھا،ہر سیاسی و دینی جماعت سیاست و مذہب کے نام پر اپنا بیوپار اور ان کے لیڈر و رہنما ان حساس مسئلوں اور معاملوں پر اپنے چاہنے والوں کے جوان اور توانا جذبوں کے ساتھ کھلواڑاور مذاق کرتے نظر آئے۔ رہی سہی کسر ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائم کردہ عسکری و طلباءگروپس نے پوری کر دی ۔ ان گروپس نے پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج بری طرح خراب کیا ۔پاکستان میں سیاسی و مذہبی لیڈران و رہنما¶ں کی ایماءپر غنڈوں اور بدمعاشوں کا ایک جہاں آباد ہے جس کی روک تھام کوئی نہیں،جس پر گرفت کرنےوالا کوئی نہیں ۔ ریاست عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تک ان سے بے زار ہے۔ کارروائی سے گریز، مذاکرات تک جاپہنچتی ہے۔ جن کے لوگ جب دل چاہے، جیسے چاہے،کسی کو نواز شریف ، کسی کو عمران،کسی کو فضل الرحمن،کسی کو سعد رضوی و دیگرز کی محبت میں ادھیڑ کے رکھ دیں۔ قینچیاں ،چھریا ں ، ڈنڈے، سوٹے، چلا دیں ۔ کسی کو ناحق زخمی کسی کا قتل کردیں۔ بہت سے گروہ اور جماعتیں مختلف بہانے بنائے،طرح طرح کے الزامات دھرے ، نسلی و لسانی تعصبات کو ہوا دیئے انسانوں سے انسان مروا رہے ہیں اور سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ اسے ملک و ملت،دین و دنیا،صحیح و غلط کے نام پر ٹھیک ہونے کا جواز بھی بخشتے ہیں۔ملک عزیز میں ہر ایک اپنا من مرضی،دل چاہا ”سیاسی و مذہبی ”چورن بیچ رہا ہے ایسے میں اگر عمران خان اب جا کر اپنا سیاسی و امریکن چورن بیچ دوراہے عوام بیچ رہا ہے تو اس سے کسی کا کیا جاتا ہے؟کسی کو پریشانی یا تکلیف کس بات کی؟اس ملک پاکستان کو دیکھنے کے بعد تو یوں لگتا ہے کہ جیسے صرف یہی ایک ملک ہے جو بناہی صرف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے چورن بیچنے کےلئے ہی ہے کہ اس سارے عمل میں کام کی بات کوئی نہیں ہوتی،نہ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے،نہ کسی مذہبی پیشوا کی جانب سے۔ میں کسی بھی سیاسی و دینی جماعت کے معاملات کو” چورن بیچنا” نہیں کہتا اور نہ ہی سمجھتا ہوں، تاہم کچھ افراد کی ریشہ دیوانیوں کے جواب میں سمجھانے کے لیے ایسا بولا ہے جس پرانتہائی تہہ دل سے معافی کادرخواست گزار ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri