کالم

طویل خاموشی کے بعد دھند چھٹ جانے کا موسم

مئی سانحہ بھول جانے والا سانحہ نہیں ہے ۔ اِس پر مسلح افواج کا ردعمل قطعی،غیر مبہم اور دو ٹوک تھا،کہا گیا”یہ قومی تاریخ کا سیاہ باب تھا۔ ”یقینایہ جو کچھ بھی ہوا ہے ٹھیک نہ تھا،قابل مذمت واقعہ ہے۔9 مئی سانحہ کو نہ ہی کوئی9 بھلائے گا اور نہ ہی یہ بھول جانے والا واقعہ ہے۔اِس دن جو کچھ وطن عزیز میں ہوا،ایک انتہائی شرمناک مظاہرہ تھا۔9 مئی جلا¶ گھیرا¶ واقعہ سے پاکستان کی بیرون دنیا سبکی ہوئی ہے اور اِس حوالے سے اچھا میسج نہیں گیا ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ ہمارے سکیورٹی اداروں کی قابلیت و صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے اور ہماری اداراتی گرفت کتنی کمزور اور حالت کتنی پتلی کی ساری قلعی کھول گیا ہے۔یہ نظر انداز کر دینے والا سانحہ ہرگز نہیں ہے ۔ حقیقی ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں سزا دی جائے تاکہ درد کا کچھ مداوا ہو۔9 مئی اچانک رونما ہو جانے والا حادثہ تھا جو آناً فاناًہوا کہ سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔پی ٹی آئی ورکرز کے بپھرے ہجوم میں شرپسند عناصر کی ایک کاروائی تھی مگر ریاستی سطح پر ہمارے سیکیورٹی اداروں کی غفلت کا نتیجہ بھی کہ کنٹرول ذرا سا بھی نہ تھا۔شاید کہ ہمارے ادارے اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ وجہ تھی کہ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا اور کچھ کر بھی نہ سکے۔یہ جنہوں نے بھی کیا ہے غلط کیا ہے اور وہ ملک و ملت کے خیر خواہ ہرگز نہیں ہیں۔یاد رہے کہ ِاس طرح کا ایک سانحہ آرمی پبلک سکول بھی ہوا تھا کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گرد ہمارے بچوں کو لہولہان کرکے بچ نکلے۔یہ جہاں حادثہ ہے وہاں ہماری غفلت کا اشارہ بھی کرتا ہے کہ آخر ایساکیوں؟ ۔آخر ہم ایسے موقع پر کہاں ہوتے ہیں اور آرمی پبلک سکول حملہ آور دہشت گردوں اور نو مئی کے شرپسندوں سے کیسے شکست کھا جاتے ہیں اور پھر وجہ ڈھونڈنا اتنا مشکل کیوں ہو جاتا ہے؟آرمی پبلک سکول سانحہ کون کر گیا،کوئی پتہ نہیں ہے۔ نو مئی کیسے ہو گیا،کچھ بھی قوم کے سامنے آ تا نہیں ہے ۔ بس بحیثیت قوم اِس پر ریاستی سطح پر رُونا دھونا ہی ہمارا مقدر بن چکا ہے اور دشمن ہماری اِسی ہماری کمزوری سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔بلوچستان سانحہ کوئی کم سانحہ ہے کہ دن دہاڑے بسوں سے اتار کر مسافر لوگ مار دیے گئے مگر یہ کون لوگ تھے، تحقیقات جاری ہے کا ہی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا مگر رزلٹ نہیں ملے گا۔یہی وہ معاملات ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا جن قابو میں ہی نہیں آ تا ہے اور ہم ہیں کہ سنبھالنا ہمارے بس میں نہیں رہا ہے۔سیاست اور مداخلت نے ہمیں تباہ کرڈالا ہے اور ہم سے برکتیں اور رحمتیں اُٹھ سی گئی ہیں اور کچھ ایسے معاملوں میں جند ناسمجھ تجزیہ نگار حضرات خواہ مخواہ کی کھاد اور پانی ڈالتے رہتے ہیں کہ سلجھاہوا معاملہ بھی التوا میں ڈال دیتے ہیں اور اپنی دانشوری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ایسے ہی ایسے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑا دیتے ہیں جس کے حقیقی سیاق و سباق سے قطعی واقف نہیں ہوتے ہیں شناسا ہونا تو پھر بڑی بات ہے بھی مختلف طرح کی پھلجھڑیاں اور خوش فہمیاں پالے ہوئے اپنے ٹیبل ٹاک اور کالموں میں کیا کیا عجیب باتیں سنا رہے ہوتے ہیں۔بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں پاس کی ذرا سا بھی خبر نہیں رکھتے ہیں۔بس اپنے آ پ کو دوسروں پر الزامات دھرنے کی مشین ہی بنا رکھا ہے۔کسی کی سیاسی محبت میں انتہاءکا فائدہ اٹھانے کی سوچ میں ہی حال و بے حال سے ہوئے پھرتے ہیں ۔ دوسروں کی دھری کی دھری رہ جانے والی تدبیریں بتانے والے خود دھری کی دھری تدبیروں کا حقیقی شکار بن گئے ہیں۔بات تو صرف اتنی سی تھی کہ پہلے کو بھجوانا تھا،دوسرے کو لانا تھا،ورنہ ایکسٹینشن کے بخار میں تو ہراک مبتلا ہے۔رہی بات بغض فلاں فلاں کی تو یہاں تو ہر کوئی کسی نہ کسی کے بغض میں مبتلا ہے اور اب یہ ہماری ملکی ریت بنتا جا رہا ہے۔اس پر اتنی باتیں کیوں؟۔یہ ہوئی ایکسٹینشن کی بات اب کیوں؟کیا کسی اور ایکسٹینشن کا ارادہ ہے کیا؟۔ایکسٹینشن کی باتوں اور نو مئی کے سانحہ کا رُونا رونے سے ہم اپنا دل تو ہلکا کر سکتے ہیں مگر کسی دوسرے کا دل جلا نہیں سکتے ہیں ۔ دوسروں کے بدنما چہرے بتا کر خود خوشنما چہروں میں چھپ نہیں سکتے ہیں۔اِسی طرح بغیر ثبوت کسی پر الزام لگانہیں سکتے اور معزز عدالتیں بغیر ثبوت سزائیں نہیں دے سکتی۔نو مئی کی سنگینی ابھی تک پوری طرح آ شکارہ نہیں کی جا سکی مگرتاویل خاموشی کے بعد دھند چھٹ جانے پر سب کچھ واضح ہو جانے کاوقت قریب ہی آ رہا ہے۔کون کیا ہے سب روز روشن کی طرح سامنے آ ہی جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ صبر صبر اور صبر اور اس صبر کا سفر ابھی اور کتنا باقی ہے قبل از وقت اس پر کچھ کہنا ابھی مشکل ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
تم نے خود غرض شکلیں کبھی دیکھی نہیں شاید
آئینہ ہو تو آپ کو دکھلا دوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے