کالم

طویل مدتی میثاق معیشت کی ضرورت

نجی چینل کے پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے اپوزیشن لیڈرعمرایوب نے بہت واضع اورصاف الفاظ میں کہاکہ میثاق جمہوریت اورمیثاق معیشت میں فرق ہے میثاق جمہوریت ہوسکتاہے جبکہ میثاق معیشت مختلف بات ہے،پروگرام کے میزان نے اپناسوال دہراتے ہوئے کہاکہ ملک کے معاشی حالات میں بہتری کیلئے بھی میثاق معیشت ممکن نہیں؟جواب میں عمرایوب نے کہاکہ معیشت چلانے کیلئے ہرپارٹی کااپنا الگ پروگرام ہوتاہے پی ٹی آئی کااپنا پروگرام ہے،ن لیگ کااپنااورپیپلزپارٹی کااپناالگ پروگرام ہوگا ، میثاق معیشت کے موضوع پرہم حکومت کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں،میزبان نے سوال مزیدوضاحب کے ساتھ دہراتے ہوئے پوچھاکہ آپ بیٹھ کربات کریں توکیایہ ممکن نہیں کہ حکومت جہاں غلطی پرہووہاں آپ اپنی بات منواکرملکی معیشت کومشکل سے نکالنے میں کرداراداکریں ؟اپوزیشن لیڈر کا جواب اس باربھی نفی میں تھا،کھری اورسچی بات بھی یہی ہے کہ جب بھی حکومت و اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں کوئی معاہدہ طے پاتاہے اس کاموضوع ملک و قوم کیلئے کم جبکہ سیاستدانوں کی بقاءوفلاح کے معاملات زیادہ ہوتے ہیں،جاری مذاکرات میں بھی پی ٹی آئی اپنی شراط پربانی سمیت دیگرقیادت اور کارکنان کی رہائی جبکہ حکومت سیاسی استحکام چاہتی ہے تاکہ احتجاج اور دھرنوں کاسامنانہ کرناپڑے۔ایک پارٹی اپنا معاشی پروگرام اپنے دورحکومت کیلئے بچاکے رکھتی ہے تودوسری اپنے دور اقتدار کیلئے ، تنقید اور مخالفت فقط سیاسی مقبولیت بڑھانے کیلئے کی جاتی ہے،اسی وجہ سے ملکی پالیسوں اور پروگرامزمیں تسلسل قائم نہیں ہو پاتا، دو چار سال بعدحکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہر چیز بدل جاتی ہے،کیایہ ممکن نہیں کہ تمام پارٹیاں مل بیٹھ کرمیثاق معیشت پراتفاق رائے قائم کرلیں تاکہ ملک ترقی کرے اورعوام خوشحال ہوں؟ممکن ہے سب کچھ ممکن ہے ماضی کی سخت ترین حریف پاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلزپارٹی اتحادی حکومت بناسکتی ہیں توسیاست میں سب کچھ ممکن ہے، معیشت کوسیاست سے بالاترقراردے دیاجائے تو بھی یہاں سیاست کیلئے بہت کچھ ہے ، قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کی حکومت اپنی مرضی سے بجلی سستی کرنے،ٹیکس نظام کونرم کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی اجازت کی محتاج ہوچکی ہے،ایسے حالات میں تمام سیاسی جماعتوں اوراہم اداروں کی شمولیت کے ساتھ طویل مدتی میثاق معیشت کی پاکستان کوشدیدضرورت ہے۔ اپوزیشن لیڈرنے سچی اورکھری بات کی کہ پی ٹی آئی اپنامعاشی پلان حکومت کے حوالے کرکے ملک کومشکل معاشی حالات سے نکال کرخوشحالی وترقی کے راستے پرگامزن کرنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے توپھرآئندہ سیاست کس بنیادپرکرے گی ۔وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف بھی مسلسل سچی اورکھری باتیں کررہے ہیں جس سے لگتاہے کہ آج کل جیسے سچی اورکھری باتوں کاموسم ہے۔ بدھ کے روزکراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ ٹیکس کا نظام کاروبار اور سرمایہ کاری کو چلنے نہیں دے رہا ، کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اس لیے حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کیے معاہدے اوروعدے نبھانے ہوں گے۔یعنی وزیراعظم پاکستان بھی سچی اورکھری بات کہہ رہے ہیں کہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لیتارہے گا حکومت پاکستان وہ چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو اپنے فیصلے کرنے میں آزاداورخودمختارنہیں ہو سکتی ۔ ایک سچی اورکھری بات یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت،عدلیہ،فوجی قیادت ، تاجربرادری اورصحافیوں سمیت باشعورپاکستانی یہ سمجھ چکے ہیں کہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل اور ترقی کےلئے طویل المدت میثاق معیشت اور سیاسی ہم آہنگی کی شدیدضرورت ہے جوسنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کے بغیرممکن نہیں۔میثاق معیشت ایک جامع حکمت عملی ہے جس کا مقصد ملک کی معیشت کو مستحکم اور منصفانہ بنانا ہوتاہے، ملکی قیادت اس کی درست طریقے سے منصوبہ بندی اور عملدرآمد کریں تو اس سے معاشی ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹیں دورکی جاسکتی ہیں، غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکتاہے اور مساوات میں اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ہمیں اب یہ سمجھ لیناچاہیے کہ سیاسی عدم استحکام معیشت کیلئے زہرقاتل ہے اور معاشی استحکام وترقی کی منزل سیاسی استحکام کے راستے سے گزرکرملے گی،لہٰذااب یہ طے کرلیناچاہیے کہ پائیدار ترقی کی بنیادپالیسیوں کے تسلسل اور دوررس منصوبہ بندی کے بغیرممکن نہیں، حکومت کی تبدیلی ملکی معاشی پالیسیوں پر اثراندازنہ ہو توملک معاشی طور پر پھلے پھولے گا،بیرونی قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہوگا تب ہی توحکومتیں اپنے فیصلے کرنے کیلئے خودمختارہوں گی،آئی ایم ایف کے دباومیں بے بس قسم کی حکومت کے حصول کیلئے ایک دوسرے کو سیاسی،انتقامی مقدمات کی بنیاد پر جیلوں میں ڈالناکہاں کی عقل مندی ہے ، چنانچہ تمام سیاسی قوتوں کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم معیشت کو مشترکہ ترجیح بنا کر اس میں بہتری کے امکانات پر اتفاق رائے قائم کریں اورایک دوسرے کے ساتھ بلاامتیاز اور غیر مشروط تعاون کریں۔ نہ صرف میثاق معیشت بلکہ میثاق احترام مینڈیٹ کیلئے سنجیدہ اور غیرمشروط مذاکرات ناگزیرہیں،مل بیٹھ کرطے کرلیں کہ کوئی حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ملکی معیشت کو نقصان پہچانےوالے کسی عمل کاحصہ نہیں بنے گا،سب ایک دوسرے کے مینڈیٹ کااحترام کریں گے،ایک دوسرے کیخلاف سیاسی ، انتقامی مقدمات قائم نہیں کریں گے،اداروں کواستعمال کرنے کی بجائے حصول اقتدارکیلئے صرف اورصرف عوام کی طرف دیکھیں گے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے