کالم

ظلی کائنات سے مادی کائنات تک

انیسویں صدی کے نصف آخر سے بیسویں کے نصف اول تک،ہندوستان کی تاریخ میں بہت،نادر ونایاب اور نابغہ روزگار شخصیات موجود رہی ہیں۔تاریخ کے قرطاس ابیض پر جن کا کردار، دیدہ زیب خط نستعلیق کی طرح نمایاں اور بھلا معلوم ہوتا ہے۔یہ سب ہماری تاریخ کے انمول موتی اور ہیرے ہیں جنھیں وقت نے تراش کر ہشت اطراف سے روشن اور دلکش بنا دیاتھا۔ان میں ایک بڑی شخصیت شاہ ولی اللہ کی ہے۔فکر و نظر کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب کر زندگی کے سمندر کی سطح آب پر سالوں کے فاصلے کو علم وقلم کے دست و بازو سے زیر کرتے،ان جیسی شخصیت کم دیکھنے میں آتی ہے۔آپ کے فرزندوں میں شاہ عبد العزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی آپ ہی کے رستہ پر چلنے والوں میں سے تھے۔شاہ عبد العزیز نے تو وہ مقام حاصل کیا کہ آپ کے دروس کاشہرہ چہار دانگ عالم میں جاری ہوگیا۔ آپ کا درس سننے،دلی کا انگریز کمشنر آیا کرتا تھا۔کسی نے اس سے پوچھا آپ وہاں کیوں جاتے ہیں تو اس نے جواب دیا یہی تو وہ لوگ ہیں جو قوموں کی تاریخ بناتے ہیں۔اس انگریز آفیسر کی قدردانی اس خانوادہ کے علمی وروحانی مقام و مرتبے کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔شاہ ولی اللہ کی کتاب حج اللہ البالغہ دینی اورعلمی حلقوں میں بہت معروف ہے اور ایک دنیا اس کی معترف ہے۔اصل متن عربی میں ہے۔اس کے اردو تراجم میں ایک ترجمہ مولوی عبدالرحیم نے کیا ہے۔اس کتاب کا دوسرا باب ”عالم مثال کا اثبات اور اس کی کیفیات کے متعلق ہے جس میں مختلف توجیہات اورتمیثلات کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق ہر شے کا ایک مادی پہلو ہے اور ایک غیر مادی پہلو۔ غیر مادی جسم عالم مثال میں موجود ہے اور مادی جسم اس عالم ناسوت میں موجود ہے ۔ عالم مثال،عالم لاہوت اور عالم ناسوت کے درمیان ایک میڈیم کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔وہ عالم اس دنیا کی نسبت بہت بڑا اور وسیع ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس عالم میں معانی یعنی حقائق مجردہ کو ظاہری شکل وصورت میں تمثل حاصل ہوتا ہے یعنی ان کے لیے بھی جسم ہیں لیکن وہ مادی نہیں غیرمادی ہیں۔ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ وہ تمام واقعات جن کا ظہور اس عالم مادی میں ہوتا ہے،ان کے یہاں ظہور سے پہلے،انہیں عالم مثال میں ایک طرح کا تحقیق حاصل ہوتا ہے یعنی اِس دنیا میں جو امور انجام دئیے جاتے ہیں وہ اس سے پہلے عالم مثال میں تکمیل پذیرہو چکے ہوتے ہیں۔
ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ جو چیزیں اِس دنیا میں یعنی خارج میں پائی جاتی ہیں، وہ تمام اشیااور عالم مثال میں پائی جانے والی اشیا ایک ہوتی ہیں۔اسی لیے عالم مادی میں جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو ان کی بعینہ وہی صورت ہوتی ہے جو عالم مثال میں ہوتی ہے۔جہاں تک اس اتحاد کی نوعیت کا تعلق ہے، تو اس کی تعیین بہت مشکل ہے۔
شاہ صاحب نے عالم مثال پر دلالت کرنے والی انیس احادیث پیش کی ہیں،جن میں مختلف حقائق کے لیے اجسام کا ذکر موجود ہے۔تمثلات کی چند مثالوں کے بیان میں اس حدیث شریف کا حوالہ بڑا اہم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف سے فارغ ہو کر حاضرین سے اس طرح خطاب کیا۔”نماز کے اندر میرے سامنے مسجد کی دیواروں اور میری جائے قیام کے درمیان جنت اوردوزخ متمثل ہوئے” ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ کرام نے اس موقع پر آپ کو اپنا دست مبارک آگے بڑھاتے ہوئے دیکھا۔نماز کے بعد انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ ”میں نے جنت کے باغ میں سے ایک انگور کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا”۔ اسی طرح آپ نے دوزخ کو اس قدر اپنے قریب مشاہدہ کیا کہ آپ نماز میں ہی پیچھے کی طرف ہٹ گئے اور ایک گہرا سانس لیا جس طرح کہ شدت کی گرمی کے احساس پر آدمی لیتا ہے۔اس بیان سے پہلے اور بعد میں شاہ ولی اللہ نے کئی اور احادیث بیان کیں جن سے عالم مثال کا ثبوت ملتاہے۔ان روایات پر غور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کا اطلاق ظاہر پر کیا جائے، یعنی جو کچھ بھی ظاہری طور پر مفہوم نکلتا ہے اس کو مان لیا جائے۔ اس صورت میں عالم مثال کو ماننا پڑے گا۔حضرت شاہ صاحب نے ان احادیث کے استنباط سے عالم مثال کانظریہ آج سے تقریبا ڈھائی تین سو برس پہلے پیش کیا تھا۔حیرت یہ ہے کہ آج کی جدید فزکس کے ماہرین نے بیسویں صدی میں مساوی کائنات کا جونظریہ پیش کیا ہے،وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریہ سے بڑی حد تک ملتا جلتا ہے۔ 1954میں، پرنسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹریٹ کرنے والے سکالر ہیوگ ایورٹ نے نظریہ پیش کیا کہ ہماری اپنی کائنات کے ساتھ،متوازی کائناتیں بھی موجود ہیں جو ان سے الگ ہو جاتی ہیں۔ان متوازی کائناتوں کوڈارک میٹر پر مبنی کہا گیا۔ماضی قریب تک ڈارک میٹر کا ثبوت موجود نہیں تھا، اور اسے مادہ ہی سمجھا جاتا تھا جو نظر نہ آئے نہ ہی مشاہدے میں ہو۔
سائنس دانوں نے اس تاریک مادے کے وجود کا اندازہ،ستاروں اور کہکشاں پر موجودکشش سے لگایا ہے،جو وہاں موجود مادے کی کشش سے کہیں زیادہ ہے۔اس کھینچنے والے غیر مرئی مادے کا مشاہدہ، دربینوں یا روشنی کا پتہ دینے والے آلات سے نہیں کیا جا سکتا۔اسے تاریک مادہ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نہ تو روشنی کا اخراج کرتا ہے،نہ ہی روشنی جذب کرتا ہے اور کسی چیز کی کوئی عکاسی کرتا ہے۔ ایم آئی ٹی (میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کے پروفیسر میکس ٹیگ مارک نے متوازی کائنات کی چار الگ الگ اقسام بتائی ہیں۔ فزکس کے ماہرین نے مساوی کائنات کے لیے جو دیگر دو نام تجویز کیے ہیں ان میں سے ایک: ظلی کائنات اور دوسرا آئینہءکائنات ہے۔ یہ دونوں نام بھی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے تجویز کردہ نام،عالم مثال سے بہت قریب ہیں۔شاہ ولی اللہ نے عالم مثال کو غیر مادی کہا ہے۔ مادی جسم تووہی ہوتا ہے، جسے چھوا جاسکے اور جو نظر آتا ہے مگر نظر نہ آنے کی بنا پر وہ ڈارک میٹر ہی ہوسکتا ہے۔اس ظلی کائنات کے تمام اجسام مثالی ہیں، ہر معنی کو اس کی حالت کا لحاظ کرتے ہوئے بھی جسم دیا جاتا ہے، جیسے بزدلی کو خرگوش کا اور دنیا کو بوڑھی عورت کا۔ جدید فزکس نے ایک تصور یہ دیا ہے کہ ہمارا مستقبل ہی مساوی کائنات کا ماضی ہوتا ہے اور جو چیز یہاں وقوع پزیر ہوتی ہے وہ وہاں پہلے ہوچکی ہوتی ہے۔اب فزکس کے ماہرین ہماری مادی کائنات اور مساوی کائنات کے درمیان اس گہرے ربط کی اہمیت بیان کر رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ہے۔فزکس اور دیگر جدید علوم کی روشنی نے گو آج ہر ایک شخص کی آنکھیں چندھیا دی ہیں لیکن علم کی جس شاخ کو بھی پکڑیں،قدم قدم پر متکلمین اسلام کے لیے داد تحسین دینے کو دل چاہتا ہے کہ ایک سرے پر وہ موجود ہوتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے صدیوں پہلے وہ کچھ سوچ لیا تھا جو نئی روشنی میں نہایا ہوا،یورپ اس صدی میں سوچ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے