کالم

عافیہ صدیقی کی رہائی ۔ہماری اجتماعی ذمہدار ی

a r tariq

بہت دیرکئے ،بالاخر اسلام آبادہائی کورٹ نے بھی امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے حکومت پاکستان کو یہ معاملہ امریکی سفیر کے روبرو اٹھانے کا کہہ دیا ۔ہماری عدلیہ اس پرجوکرسکتی تھی و ہ کردیا ہے اس سے زیادہ اور کیا کہنا یامزید زور دینا اس کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ عافیہ صدیقی معاملہ امریکن گورنمنٹ کے ساتھ ہے جہاں صرف ہم ریکوئیسٹ کر سکتے ہیں اپنا حکم یا زور کسی طور نہیں چلا سکتے، عافیہ صدیقی بقول اُن کے ،اِن کی مجرم ہے وہ امریکن فوجیوں پر حملہ آور ہوئی تھی وہ اسکے پیچھے تھے اور اس کی تلاش میں تھے کہ وہ انہیں مل گئی ۔ (عافیہ صدیقی معاملہ کیا ؟اس کی قید وبند میں پڑنے کی وجوہات کیا ؟ کیا عافیہ صدیقی امریکن مجرم ؟کیسے امریکی ہاتھ آئی؟ کہاں پکڑی گئی ؟ کہاں سے کہاں تک پہنچتے امریکہ کیسے پہنچی؟ کیا کیس بنا؟کیا ثابت ہواکیانہیں؟ عافیہ صدیقی کتنی مجرم کتنی معصوم؟ عافیہ صدیقی کہانی امریکن بات میں کتنی حقیقت کتنا افسانہ؟ اس پر میں روشنی ڈالنا نہیں چاہتا، حکومت پاکستان زیادہ بہتر سمجھتی کہ اس کیس کی نوعیت اور اصل صورتحال کیا اور یہ کہ اب تک عافیہ صدیقی امریکی قید میں ہی کیوں؟ اور اب تک رہائی کیونکر ممکن نہ ہو سکی ؟ )۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ عافیہ صدیقی معاملہ میں شاید رب کو یہی منظور تھا ، خدا نے عافیہ صدیقی کیلئے یہ آزمائش، یہ پُرکٹھن راستے اس کی دائمی سرخروئی او رنجات کیلئے شاید خود سے ہی بنائے تھے کہ چاہ کر بھی باوجود کوشش اور تمنا حکومت پاکستان کیلئے کوئی راستہ نہ بن سکا ، سارے عمل میں حکومت پاکستان او رمتعدد سابقہ او رموجودہ حکومتوں کی مخلصانہ کوششیں اپنی جگہ بے مثال ہیںمگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔جب اللہ کو منظور نہ ہو یا وہ انسانی کوششوں کو مزید امتحان میں ڈالے رکھنا چاہتا ہو تو پھر دیر ہوہی جاتی ہے۔ اب اسے کوئی غفلت / لاپرواہی کہے یا سستی و کوتاہی یا جو کوئی مرضی نام دے ، اس کی اپنی سوچ، اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ،وہ جیسا جس طرح سوچنا چاہے آزاد ہے۔ میری یہ بات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا جس نے عافیہ کو پیدا کیا ہے وہ حکومت پاکستان بالخصوص سابق وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان اور سابق آرمی چیف جناب قمر جاویدباجواکی اس حوالے کی گئی مثبت اور کارگر کوششوں کو اچھی طرح جانتا ہے ۔ وہ الگ بات ہے کہ کچھ اپنی ہی طرف سے ہوئی پیچیدگیوں اورمشکلوں کے سبب یہ کوششیں کارگر ثابت نہ ہو سکیںمگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سحر کبھی طلوع نہ ہوگی جس کا سب کو انتظار ہے ۔قوم کو یہ جان لینا چاہیے کہ عافیہ صدیقی امریکہ کے سامنے اپنے لاغرجسم مگر ایمانی طاقت والے جذبے کے ساتھ مسلسل ڈٹی ہوئی ہے اور کسی بھی موقع پر وہ ان استعماری قوتوں کے گماشتوں کے ہاتھوں زمانے بھر کی تکلیفوں ، پریشانیوں کے باوجود سرنڈر نہیں ہونا چاہتی۔بہادر اورمضبوط اعصاب کی مالک عافیہ صدیقی عالم اسلام کا فخر اور قوم کی وہ بیٹی ہے جس پر سبھی کو ناز ہے ۔ عافیہ صدیقی کی اب تک کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس ظلم و ستم اور قید و بند کی صعوبتوں سے قطعی طور پر گبھرائی نہیں ہے ۔وہ ہر جگہ ہرمقام پر خالصتاً اپنے رب کی رضا کے ساتھ ہر ظلم و جبر سہتی کھڑی ہے ۔ وہ ناتواں ومجبور ضرور ہے مگر کم حوصلہ ، کم ہمت بالکل نہیں ہے ۔ سب سے بڑھ کر امریکن اسے 86سال تو دور کی بات ، ساری عمر بھی قید و بند میں رکھیں اسے جھکا او ر گرانہیں سکتے ۔ عافیہ صدیقی صبر و استقلال کی وہ تصویر بن چکی ہے جس پر ہماری آنے والی نسلوں کو نازہوگااور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عافیہ صدیقی عالم اسلام کی وہ بلند حوصلہ خاتون ہے جس پر پورے عالم اسلام کو فخرا ورناز ہے۔میرا تمام عالم اسلام سے کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی معاملہ جو بھی ہے وہ اسلام کی بیٹی ہے اس کو لانے کیلئے ایک متحدہ اسلامی پلیٹ فارم پر عافیہ کی بات کرنا ہوگی۔ عافیہ صدیقی کو عافیہ کے ذریعے نہیں ،کسی مصلحت و جبر سے مجبور ہو کر کے ذریعے سے نہیں ، اپنی مکمل اسلامی قوت وطاقت سے لانا ہوگا۔ عافیہ صدیقی کو لانے کیلئے عافیہ کی ہاں ناں کی طرف نہیں دیکھنا ہوگا ۔ہماری ذمہ داری کیا ؟ بحیثیت ریاست پاکستان و تمام اسلامی ممالک وہ ہر صورت نبھانی ہوگی ۔ عافیہ صدیقی امریکن نیشنیلٹی ہولڈر ہے تو کیا ہوا ، وہ اسلام کی بیٹی ہے اور اسلام سے بڑھ کر اور کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہوتا۔تمام عالم اسلام او رپاکستان کو اس پر امریکہ سے اب واضح طور پر دو ٹوک لفظوں میں صاف بات کرنا ہوگی اور وہ تمام رکاوٹیں اور وجوہات جو عافیہ صدیقی رہائی میں درپیش ، اپنی ریاستی بہترین حکمت عملی سے حل کرکے عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانا ہوگااو ریہ بہت ضروری ہے اس لئے کہ شاید ہم خدا کے حضور سرخرو ٹھہر سکیں، قوم کی بیٹی کیلئے جو تب نہیں کر سکے اب ہی کرلیجئے، آخر توہم نے رب کو منہ دکھاناہے وہاں کیا منہ لے کر جائیں گے جہاں کو ئی عذر ، بہانہ بالکل نہیں چلنا، جہاں صرف حساب ہوگا ، حساب حساب او رصرف حساب ، کیا ہمارے دل ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ رب کے خوف سے حقیقی طورڈر جائیں ، سوچنے کی با ت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri