کالم

عالمی برادری کاگھناﺅنااقدام بڑی جنگ کاپیش خیمہ

غزہ میں اسرائیلی بربریت کا سلسلہ نہ تھم سکا اور گزشتہ24 گھنٹے میں 63 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023 کو صہیونی جرائم کے آغاز سے اب تک غزہ میں شہداءکی تعداد 31 ہزار 553 تک پہنچ گئی جبکہ 73 ہزار 546 زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں کی نصیرات کیمپ پر فضائی حملے میں شہید ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے 36 افراد بھی شامل ہیں۔
صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز کو 162 دن گزرنے کے ساتھ ساتھ جب کہ اس بحران کے حل کے لیے ثالثوں کی کوششیں جاری ہیں، قابض افواج اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر روز ایک نئے سانحہ اور تباہی کو جنم دے رہی ہیں۔صیہونی حکومت نے اپنی مسلسل جارحیت کے علاوہ انسانی امداد اور خوراک کی ترسیل کو روک کر صورتحال کو مزید تباہ کن بنا دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے انسانیت کے ناطے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ اسرائیل رفاہ پر حملہ کرنے سے گریز کرے۔ رفاہ بے یارو مددگار افراد کی پناہ گاہ ہے، رفاہ میں کھلے آسمان تلے پڑے 12 لاکھ فلسطینیوں میں کہیں منتقل ہونے کی جگہ نہ قوت ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی مذاکرات کے دوران قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ممکن ہے۔ اسرائیلی پولیس نے بیت لحم کے دیہشہ کیمپ پر افطاری میں مصروف فلسطینیوں پر دھاوا بھول دیا۔ حماس سے مل کر اسرائیل کیخلاف جہاد کرنے والے اسرائیلی شہری جمعہ ابو غنیمہ جیل میں انتقال کر گئے۔ امریکہ اور اردن کے سی 130 طیاروں نے غزہ میں امدادی سامان گرایا۔امریکی سینٹرل کمانڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فضا سے گرائی جانے والی امداد کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات سے آگاہ ہیں، ہم لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، تاہم کچھ رپورٹس کے برعکس یہ حادثہ امریکی فضائی امداد کا نتیجہ نہیں ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے اپیل کی اسرائیل رفح میں زمینی آپریشن نہ کرے ۔ مصری وزارت خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں امداد کیلئے سمندری راستوں پر عائد پابندیاں ختم کرے۔ مصر رفح سے فضائی امداد کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں تباہ کن انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، غذائی قلت سے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ صحت کے 406 مراکز پر حملے کیے جاچکے ہیں، 118 ہیلتھ ورکرز حراست میں ہیں، 3 میں سے صرف ایک ہسپتال جزوی طور پر فعال ہے ہے، کیا یہ (مظالم) کافی نہیں ہے؟
اسرائیلی حکومت کے قیدیوں کے اہل خانہ نے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں غاصب حکومت کی جنگی کابینہ کی جانب سے کوئی سمجھوتہ نہ کئے جانے کے خلاف ایالون شاہراہ بند کردی۔مظاہرین نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی گاڑی کو محاصرے میں لے لیا۔ مظاہرین نے حیفا میں بھی حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کےلئے فوری سمجھوتہ کئے جانے کا مطالبہ کیا۔اسی دوران اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کے وفد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فتح و کامرانی، حماس کی تباہی سے نہیں بلکہ قیدیوں کی واپسی سے حاصل ہوگی۔ اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کے وفد نے مزید کہا کہ بنیامین نیتن یاہو صرف لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور وہ اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس طرح قیدیوں کی واپسی کا وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ کو قیدیوں کی جانوں کی پرواہ نہیں ہے اور وہ غزہ میں زمینی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام قیدیوں کو زندہ واپس کیا جائے، ہم انہیں تابوتوں میں نہیں چاہتے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اقوام متحدہ جو دو ملکوں کے درمیان تصفیہ طلب معاملات طے کرانے کا پابند ہے اور اسی مقصد کے لیے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ امریکہ اور جنونی اسرائیل کے سامنے انتہائی بے بس نظر آرہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے چارٹر کے مطابق فلسطین میں جنگ بندی کے سخت احکامات جاری کرے اور اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے، وہ اس جنگ بندی کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد لانے پر ہی اکتفا کر رہا ہے جسے امریکا مسلسل تیسری بار ویٹو کر چکا ہے جس سے دہشت گرد اسرائیل کے حوصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔
اسرائیل غزہ میں رفح کے علاقے میں ایک بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کررہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں لاکھوں فلسطینی جنگ زدہ علاقوں میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ضروری ہے کہ جنگی جرائم پر اسرائیل اور اس کی سرپرستی کرنے پر امریکا کے خلاف اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت تمام امن پسند ممالک کو متحد ہو کر عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کریں۔ اسی طرح ان دونوں جارح ملکوںکو جارحیت سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ اگر امریکا اسی طرح جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا اور اسرائیل اس کی شہ پر فلسطینیوں کو شہید کرتا رہا تو ان کا یہ گھناﺅنا اقدام کرہ ارض پر ایک بڑی جنگ کی نوبت لا سکتا ہے۔ اس وقت فلسطین میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گرد اسرائیل کو فوری نکیل ڈالی جائے جس کےلئے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے