امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان سمیت درجنوں حریفوں اور اتحادیوں پر بہت زیادہ درآمدی محصولات عائد کرکے عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے کے نتیجے میں مختلف ممالک کی سٹاک مارکیٹوں میں بھونچال آگیا ہے تیل کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں عالمی تجارتی جنگ کے خطرات کی وجہ سے ایشیائی کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کی اپنی سٹاک مارکیٹس میں بھی مندی کا رحجان دیکھا جارہا ہے امریکی ٹیرف کے بعد سعودی سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے باعث سرمایہ کاروں کے اربوں ریال ڈوب گئے ہیں امریکی صدر کی جانب سے نئے ٹیرف کے بعد سعودی سٹاک مارکیٹ میں6.78 فیصد گراوٹ دیکھی گئی ہے جو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایک دن میں آنے والی ریکارڈ کمی ہے وائٹ ہاس کا کہنا ہے کہ ٹیرف کے اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا امریکہ میں اکنامک ریسرچ ایجنسی فچ ریٹنگ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ نیا ٹیرف امریکہ اور پوری دنیا کے لئے گیم چینجر ہے یہ لگ بھگ 100ممالک کو متاثر کرے گا ان میں سے 60وہ ممالک ہیں جو درآمدات پر زیادہ ٹیکس کا سامنا کر رہے ہیں بہت سے ممالک میں اس اقدام کے نتیجے میں کساد بازاری میں اضافہ ہوگا ڈبلیو ٹی او کی سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی سطح پر ٹیرف حملہ رواں سال عالمی تجارتی سامان کی تجارت کے حجم میں مجموعی طور پر 1 فیصد کی کمی کا باعث بن سکتا ہے گوزی اوکونجو ایویالا نے ایک بیان میں کہا کہ میں تجارت کے حجم میں کمی اور جوابی اقدامات کے ایک چکر کے ساتھ ٹیرف جنگ میں اضافے کے امکانات کے بارے میں کافی فکر مند ہوں جو تجارت میں مزید کمی کا باعث بنے گی دنیا بھر میں اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درآمدی محصولات عائد کرنے کا انتظار کیا جارہا تھا لیکن متاثر ہونے والے ممالک کی تعداد اور محصول کی شرح نے سب کو حیران کردیا ہے ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کرنے سے قبل ملک میں اقتصادی ایمرجنسی نافذ کرکے تجارتی نظام میں تبدیلی کے لئے وسیع اختیارات حاصل کر لئے تھے امریکی صدر کا کا یہ اقدام بلا شبہ دنیا کے تجارتی نظام کو ہلا دینے والا ہے اور اس فیصلے سے امریکہ پہلے جیسا نہیں رہے گا لیکن اس تبدیلی کو ان معنوں میں تسلیم کرنا مشکل ہے جو ٹرمپ کے خیال میں اس ڈرامائی اقدام سے رونما ہونے والی ہے امریکی صدر کا درآمدات پر بھاری ٹیرف عائد کرنےکی صورت میں امریکی حکومت کو حاصل ہونے والی کھربوں ڈالر کی آمدنی کو ملکی معیشت کو فروغ دینے کیلئے استعمال کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا امریکہ نے اگر یہ تجارتی جنگ جاری رکھی اور جلد ہی نئے یک طرفہ محاصل کے سلسلہ میں کوئی مثبت اقدام نہ کیا تو اس سے رونما ہونے والی معاشی مشکلات کاسامنا صرف ان ممالک ہی کو نہیں کرنا پڑے گا جن پر ٹرمپ نے محصول عائد کیا ہے بلکہ خود امریکی عوام کو اس کی بھاری قیمت دینا پڑے گی سب سے پہلے تو ٹیرف لاگو ہوتے ہی تمام درآمدی اشیا مہنگی ہوجائیں گی یہ قیمت امریکی صارفین ہی کو ادا کرنا پڑے گی ٹیرف سے وصول ہونے والے وسائل کب اکٹھے ہوتے ہیں اور انہیں پیداواری منصوبوں میں لگا کر کب روزگار کے مواقع دستیاب ہو سکیں گے یہ بعد کی بات ہے درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سمیت درجنوں حریفوں اور اتحادیوں پر بہت زیادہ درآمدی محصولات عائد کرکے جس تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے اس کے عالمی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جسے پہلے ہی دنیا میں جاری جنگوں اور تنازعات کے سبب کئی کھرب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات سے کئی معاشی شعبے شدید متاثر ہوں گے کمپیوٹر مینو فیکچرز پر عائد ٹیرف کے نتیجے میں ممکنہ طور پر زیادہ قیمتوں کے خطرے کا سامنا ہے تیار شدہ ادویات اور خام مال سمیت چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ٹیرف بڑھانے کے ٹرمپ کے فیصلے نے دہائیوں پر محیط پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی ہے عالمی فارما سیوٹیکل مارکیٹ کا نصف امریکہ میں ہے فارما سیوٹیکل کمپنیاں ٹرمپ پر درآمدی دوا سازی کی مصنوعات پر بتدریج محصولات نافذ کرنے پر دبا ڈال رہی ہیں ویتنام پر محصولات کے لاگو ہونے کے بعد کھیلوں کے لباس اور ملبوسات کے مینو فیکچرز پر نائکی سے لے کر آن ہولڈنگ تک متاثر ہونے کی توقع ہے کیونکہ امریکہ اپنی تقریبا نصف مصنوعات ویتنام سے درآمد کرتا ہے اقتصادی ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ایک نئی تجارتی جنگ نہ صرف بہت سے ممالک کی معیشتوں کو کساد بازی کی جانب دھکیل دے گی بلکہ امریکا اور عالمی نمو کو بھی تباہ کر دے گی جبکہ صارفین اور کمپنیوں دونوں کے لئے قیمتیں بڑھنے کا سبب بن جائے گی ٹیرف واضح پیغام ہوتا ہے جو تجارت کو جغرافیائی سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے(سب سے پہلے)امریکہ کے موقف کو تقویت دیتا ہے سب سے بڑی تشویش ناک بات یہ ہے کہ صورت حال طویل اور وسیع تر تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر درآمدی محصولات لگانے کا اقدام ہر طرح سے نقصان دہ ہے اور اس کے منفی اثرات کا پوری دنیا کی معیشت کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا امیر ممالک کے برعکس ان غریب ممالک پر زیادہ دور رس اور تکلیف دہ اثر ہو گا جن کی برآمدات امریکی تجارتی حجم میں بہت معمولی ہیں لیکن ان ملکوں کے لئے ان کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ متعدد صورتوں میں امریکہ ہی سب سے بڑی منڈی ہے پاکستان کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے ملکی برآمدات کا بیس فیصد یعنی 6 ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ جاتی ہیں اب ان پر 29فیصد ٹیرف عائد ہونے سے ان کی قیمت میں اضافہ ہو گا اور امریکی منڈی میں ان کی قیمت بڑھ جائے گی البتہ ایسا ہی محصول چونکہ دیگر سب ممالک پر بھی عائد کیا گیا ہے اس لیے امریکہ کو برآمدات پوری طرح ختم ہونے کا امکان نہیں حکومت برآمدی شعبے بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر کو سستی توانائی اور سستے خام مال کی فراہمی کو یقینی بنائے تو پاکستانی مصنوعات دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں اب بھی امریکہ میں مسابقت پیدا کرسکتی ہیں بہرحال عالمی سطح پر محصولات میں اضافے کی امریکہ کی یکطرفہ پالیسی نے دیگر تجارتی اراکین کی شدید ناراض حتی کہ جوابی کارروائیوں پر مجبور کردیا ہے بین الاقوامی برادری فکرمند ہے کہ اگر ممالک انتقام اور جوابی انتقام کے اس چکر میں پھنس گئے تو اس سے عالمی سپلائی چین کا استحکام متاثر اور عالمی معاشی ترقی کو سست کر سکتا ہے تجارتی اور محصولات کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا اندرونی مسائل کو حل کے بجائے بیرونی علاج کا سہارا لینا اور دوسروں پر الزامات عائد کرنا امریکہ کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا امریکی صدر بھاری ٹیکسز عائد کرکے نہ صرف عالمی تجارت کے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ وہ امریکا کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے دوسروں کو مصیبت میں ڈالتے ہوئے یہ بھول رہے ہیں کہ اگر دوسروں کیلئے مسائل پیدا ہوں گے تو امریکا بھی مسائل سے محفوظ نہیں رہ سکے گا ٹرمپ انتظامیہ کو ٹیرف بڑھانے کی حکمت عملی اپنانے کے بجائے یہ اندازہ لگانا چاہئے کہ اسے اس کی کیا سفارتی ومعاشی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے؟ اب بھی وقت ہے امریکہ اپنے فینٹانل جیسے مسائل کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھ کر ان کا حل تلاش کرے اور انہیں بہانہ بنا کر دوسرے ممالک کو محصولات کے ذریعے دھمکانے کا راستہ ترک اور بنیادی معاشی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے یکطرفہ محصولات کے غلط اقدامات کو فوری ختم کرے جس کی وجہ سے عالمی تجارتی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے