کالم

عالمی یومِ پارلیمنٹ کی کامیابی کے تقاضے

جون کو ہر سال پارلیمانی نظام حکومت کے اعزاز میں انٹرنیشنل پارلیمنٹ ڈے منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے پہلی بار یہ دن 2018 کو منایا، یہ دن پارلیمانی جمہوریت کےلئے منفرد اور پائیدار نظام کے معیار کو سیاسی نمائندگی کے طور پر30 تسلیم کرتا ہے۔ اس دن کا مقصد پارلیمانی نظام کی جانچ پڑتال کرنا اور اسی مناسبت سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینا بھی ہے اور پارلیمانی نظام کو درپیش چیلنجز کی پہلے درست نشاندہی کرنا اور پھر حل بھی تلاش کرنا ہے۔ یہ دن پارلیمانی نظام کے بنیادی خدوخال، اقدار اور اربوں انسانوں سے کئے گئے وعدے کے مطابق سیاسی نمائندگی کو عزت اور توقیر بخشتا ہے یعنی ووٹ کو عزت دیتا ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں اقتدار میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ جوابدہی اور عوام کی حق حکمرانی کی شفافیت کو یقینی بنانے میں پارلیمان کے کردار کو تسلیم کرتی ہے۔بین الاقوامی اصول حکومت یا انٹرنیشنل پارلیمنٹیرن ازم کو 1889 میں قائم کیا گیا تھا آئی پی یو پارلیمانی نظام حکومت کی باضابطہ نمائندگی کے طور پر عالمی تنظیم ہے جو جمہوری حکومتوں، عوامی نمائندگی، جمہوری اقدار اور ایک معاشرے کی شہری امنگوں کو فروغ دینے کےلئے کام کرتی ہے۔ آئی پی یو جمہوریت، امن، مساوات، انسانی حقوق، نوجوانوں کے اختیار، سیاسی مکالمے کےلئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تنظیم خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں، معذور افراد اور نمائندہ جمہوریت میں اقلیتوں کی شرکت کو فروغ دینے کے لئے آلات بھی جاری کرتی ہے۔کسی بھی ملک میں پارلیمان فعال جمہوریتوں کی بنیاد ہیں۔ یہ لفظ فرانسیسی لفظ ‘parlerسے آیا ہے، جس کا مطلب بات کرنا ہے۔ لاکھوں لوگوں کےلئے، سیاسی نمائندگی تو دور کی بات ہے۔ آئی پی یو کارکنوں، سماجی ورکروں اور شوقین افراد کےساتھ یکجہتی میں بھی کھڑا ہے جو پارلیمانی جمہوریت کی ساخت اور اصولوں کے تحت حکمرانی چاہتے ہیں۔بین الاقوامی یوم پارلیمنٹ ہمیں اقتدار کے ایوانوں میں بہتر نمائندگی کی جدوجہد کی یاد دہانی بھی کراتا ہے ۔ پارلیمنٹ کا کلیدی مقصد بے زبان لوگوں کو آواز دینا ہے۔ یہ کام مشکل ہے اور اسے صرف پوری شہری آبادی کی شرکت سے ہی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔اس سال یوم پارلیمنٹ ڈے ایک ایسے وقت منایا جا رہا ہے جب کہ دنیا کو امن کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے امیر ممالک پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا میں غربت کے خاتمے ماحولیات تبدیلیوں سے نمٹنے اور جہاں سیاسی پارلمانی جمہوری نظام حکومت لڑکھڑا رہا ہے اس کے لئے کردار ادا کریں اور عوام کے حق حکمرانی کو یقینی بنائیں۔یورپ کا اہم ملک جو تارکین وطن سے بھرا پڑا ہے فرانس کی پارلیمنٹ کے الیکشن کا پہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور دوسرا راﺅنڈسات جولائی کو ہوگا۔فرانس کی پارلیمنٹ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے جو نہ صرف تارکین وطن کے خلاف ہے بلکہ مذہب کے بارے میں انکے نظریات خوفناک ہیں برطانیہ جو ہمارے جیسے لوگوں کا اب گھر اور دوسرا وطن ہے یہاں4جولائی کو پارلیمنٹ کے انتخابات ہورہے ہیں اس ملک کے اگرچہ ادارے مضبوط ہیں لیکن تارکین وطن اور مسلمان یہاں کی بعض جماعتوں کے نظریات اور پارٹی داخلی اور خارجی پالیسوں سے خوفزدہ ہیں۔ برطانوی پارلیمانی نظام کو دنیا کی تمام جمہوریتوں کی ماں سمجھا جاتا ہے جس میں برابری،عوامی نمائندگی اور انسانی حقوق کو اہمیت دی جاتی ہے آئندہ پارلیمنٹ میں توقع کی جاتی ہے کہ تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہوگی ۔دوسری طرف اگرچہ پاکستان کا پارلیمانی نظام برطانیہ کی طرز ہی کا ہے لیکن عملی طور دونوں میں کوئی مماثلت نہیں برطانیہ میں سارے فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں جبکہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ربڑ سٹمپ کے طور پر چلائی جاتی ہے حالانکہ پاکستان کے مروجہ آئین میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے پارلیمنٹرین کو عوامی تائید و حمایت کے بغیر اداروں کی مدد سے پارلیمنٹ تک زبردستی پہنچایا جاتا ہے جبکہ عوام کسی اور کو ووٹ دیتے ہیں اور راتوں رات سرکاری مشینری کو استعمال کرکے نتائج بدل دیئے جاتے ہیں جیسا کہ اب کی بار ہوا،جس سے پارلیمنٹ کی بے توقیری ہوئی اور امریکہ برطانیہ اور دوسرے کئی ممالک نے الیکشن میں دھاندلی پر اپنے اعتراضات اٹھائے جبکہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں ابھی تک سراپا احتجاج ہیں اسی لئے پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوتی اور ملک میں سیاسی ، معاشی اور داخلی استحکام نہیں جب کہ پارلیمانی جماعتوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے پارٹیاں بھی شخصیات کے نام پر چلتی ہیں اسی لئے پارلیمینٹ اور سیاسی نظام کچے دھاگے کی طرح کمزور و معذور ہے۔پارلیمنٹ کمزور ہونے کی وجہ سے ملک میں 33 سال براہ راست مارشل لا رہا آئین بھی معطل رہا ہے لیڈر آف دی پارلیمنٹ بظاہر وزیراعظم ہوتا ہے لیکن اختیارات لامحدود ہونے کے باوجود سارے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے۔اعلی عدلیہ کے ججوں پر دباﺅ رہتا ہے جو کھلم کھلا انصاف کا قتل کرتے ہیں ہمیں پارلیمان کو مضبوط بنانا ہوگا سارے فیصلے پارلیمنٹ میں کرنے ہونگے اور عوام کا کھویا ہوا اعتماد پارلیمانی نظام کے بارے میں بحال کرنا ہوگا۔ بنگلہ دیش میں بھی گزشتہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور سارے اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں بند کردیا گیا جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ایک بہت بڑا الیکشن ہوا حکمران جماعت بی جے پی اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی وہ نتائج حاصل نہیں کرسکی جس کی وہ توقع کر رہی تھی جس سے پارلیمانی انتخابات کی ساکھ تو کسی حد تک نظر آتی ہے لیکن پارلیمنٹ کے اندر جو فیصلے بھارتی اقلیتوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کسطرح کے استوار کرنے ہیں وہ متشددانہ اور ظالمانہ ہوتے ہیں جن کو بدلنے کی ضرورت ہے آج کے دن پارلیمانی نظام یا جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو یہ تجدید عہد کرنا چاہئے کہ ہم جمہوری نظام کو مضبوط بنائیں گے ایسا نظام جس میں جمہور کی حکمرانی قائم ہو چونکہ کسی ملک کی پارلیمنٹ کو عوام اپنے ٹیکس کے پیسوں سے چلاتے ہیں اس لئے عوام کا اعتماد اپنی اسمبلی یا پارلیمنٹ پر ضروری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri