اکبر الہٰ آبادی نے ” عالم پےری“ کے عنوان سے بڑھاپے پر اےک طوےل نظم لکھی ہے ۔پہلا بند ملاحظہ کرےں
کےا قہر ہے ےارو جسے آجائے بڑھاپا
عشرت کو ملا خاک مےں غم لائے بڑھاپا
ہر کام کو ہر بات کو ترسائے بڑھاپا
سب چےز سے ہوتا ہے برا ہائے بڑھاپا
بڑھاپا جب توانائی ڈھل جاتی ہے اور بڑھاپابذات خود اےسی بےماری کا نام ہے جو اپنے دامن مےں کمزوری، ناتوانی اور کسمپرسی لئے ہوتا ہے ۔اقوام متحدہ کے عالمی کمےشن برائے بڑھاپا کی تحقےقاتی رپورٹ کے مطابق بڑھاپے کی چار اقسام ہےں ان مےں عمر کے بوڑھے ،روےوں کے بوڑھے ،سوچ کے بوڑھے اور آخری قسم ہے جو وقت سے پہلے اپنے پر خود بڑھاپا طاری کر لےتے ہےں ۔راقم کے پےش نظر اس کالم مےں عمر کے بوڑھے ہی ہےں ۔ضعےفی کے ضعف کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہےں جو عمر کے اس حصے سے گزر رہے ہےں ان بوڑھوں کا ماسوائے ان کی بوڑھی بےوےوں کے کوئی غم خوار نہےں ہوتا وہ بھی اگر بقےد حےات ہوں اس عمر مےں بوڑھے بچوں جےسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہےں بوڑھوں کا من پسند کام نصےحت کرنا اور اپنی گزشتہ زندگی کو کار ناموں کی شکل مےں دہرانا ہوتا ہے وہ اپنی جوانی کو ےاد کرتے ہےں اور ماضی کی داستانےں دہرا کر داستان گو بن جاتے ہےں ۔ےہ در اصل پرانی ےادوں کے سہارے اپنی لاچارگی کے کرب کو کم کرنے کی سعی کرتے ہےں ان کی اولادےں ،احباب اور اقرباءان کی باتےں سن سن کر تنگ آ چکے ہوتے ہےں وہ سمجھتے ہےں ےہ تو وہی بات ہے جو سےنکڑوں بار پہلے بھی سنی جا چکی ہے نوجوان نسل ان کا مذاق اڑاتی ہے جےسے انہوں نے کبھی بوڑھا ہی نہےں ہونا ۔مغربی دنےا کے معاشرے مےں مختلف حقوق کےلئے کام کرنےوالی تنظےموں کی اےک طولانی فہرست ہے ان مقاصد کےلئے ان کے پاس اربوں ڈالرز کے فنڈز بھی موجود ہوتے ہےں مغرب کی تقلےد مےں ہمارے ہاں بھی کبھی کبھی مختلف طبقوںکے حقوق کی خاطر آوازےں سنائی دےتی ہےں لےکن حقوق انسانی کا استحصال کوئی نئی بات نہےں فرد کی سطح سے لےکر مجموعی زندگی تک انسانےت اور انسانی حقوق کی پامالی مختلف اشکال لئے ہمارے سامنے آتی ہے جس تےزی سے انسان مادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اسی تےزی سے وہ سچے اور خوبصورت جذبوں سے دور ہوتا جا رہا ہے ہمارا معاشرہ بزرگوں کی عزت و تکرےم کے معاملے مےں اپنی خاص پہچان رکھتا تھا مگر اس مادی دور کی تےز رفتاری اور نفسا نفسی مےں ادب آداب اور خاندانےت کا پرانا تصور ماضی کی راہدارےوں مےں ہی کہےں گم ہو کر رہ گےا جسے نئے سرے سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر سال ےکم اکتوبر کو بزرگ شہرےوں کا دن مناےا جاتا ہے ان کےلئے رہائش اور خوراک کی سہولتوں کا بندوبست کرنے کا عہد کےا جاتا ہے انہےں صحت کی سہولتےں بہم پہنچانے کے پروگرام مرتب کئے جاتے ہےں لےکن ہر گزرتا دن ماہ اور سال ےہ کہتا ہوا گزر جاتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو جنم دےنے والوں کو بھولتا جا رہا ہے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے ہی بچے اپنے والدےن کو اندھےروں مےں دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ جاتے ہےں ۔آج کے اس افراتفری کے دور مےں ہر انسان کی سوچ صرف اس کے اپنے بےوی بچوں کے گرد گھومتی ہے ۔وہ بھول جاتا ہے کہ کوئی ہے جس نے اسے جنم دےا ،پرون چڑھاےا اور قابل کےا اسلامی حقوق کا باب تو نہائت روشن ،وسےع اور جامع ہے ہمارا معاشرہ انہی مذہبی اور سماجی اقدار پر فخر تو کرتا ہے لےکن عملی زندگی مےں ہمارا روےہ بوڑھوں کے ساتھ کےاہے کسی بزرگ نے کہا تھا کہ آدمؑ کے ماں باپ نہےں تھے صرف اولاد تھی اس لئے جذبات کا بہاﺅ آگے کی طرف تھا سو بنی نوع انسان کی ےہ مجبوری ہے کہ جو محنت اولاد کےلئے ہوتی ہے وہ ماں باپ کےلئے نہےں ۔روز مرہ زندگی مےں ہمےں کئی بوڑھے گندے کپڑوں اور چےتھڑوں مےں نظر آتے ہےں اور ناکافی لباس مےں جسم کی پوشےدگی قائم رکھنے سے بھی عاجز و قاصر دکھائی دےتے ہےں ۔ان کے بال گردوغبار سے اٹے ہوئے اور ان کے بالوں کو تےل کنگھی سے آرائش کئے کافی عرصہ بےت چکا ہوتا ہے اےسی خبرےں بھی مےرے ناظرےن کی نظروں سے گزری ہوں گی کہ اےک بےٹے نے باپ کی زرعی زمےن اپنے نام ٹرانسفر کرانے کے بعد باپ کو اس کے اپنے ملکےتی گھر سے ہی نکال باہر کےا ان بدقسمت انسانوں کی اےسی لرزا دےنے والی کہانےاں ہمارے لئے اور سماج کےلئے باعث شرم ہےں ےہ بوڑھے چارپائی پر حےات و زےست کی کشمکش مےں مبتلا ہوتے ہےں تو ان کی زےادہ نگہداشت اور خبر رکھنے کی بجائے ان کو تنہا کر دےا جاتا ہے جب گھر مےں کوئی مہمان ،رشتہ دار ےا عزےز آتا ہے تو اےسا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بوڑھے کی بہت زےادہ دےکھ بھال کی جا رہی ہے حالانکہ حقےقت اس کے برعکس ہوتی ہے اس بے چارے کو تو دو وقت کے کھانے سے بھی محروم رکھا جا رہا ہوتا ہے ۔ بوڑھے لوگوں کے مسائل مےں سب سے بڑا مسئلہ تنہائی کا کرب ہے جس سے وہ ڈپرےشن کا شکار ہوجاتے ہےں ۔اےک سروے کے مطابق وطن عزےز مےں لاکھوں مزدور رےٹائر منٹ کے بعد اپنا بڑھاپا کسمپرسی مےں گزار رہے ہےں جہاں گھروں مےں بوڑھوں سے تضحےک آمےز سلوک ہوتا ہے وہاں معاشرے مےں بھی ان کو عزت و احترام نہےں دےا جاتا ےہ ان فٹ بوڑھے آپ کو بےنکوں، ہسپتالوں ،کچہرےوں اور دےگر پبلک مقامات پر خوار ہوتے دکھائی دےں گے ےہ بزرگ تو اب سماج مےں اپنی بہوﺅں کے تابع ےوٹےلٹی بلوں کی ادائےگی کےلئے وقف ہےں بلوں کی ادائےگی اور پنشن کا حصول بھی ان بوڑھوں کےلئے کسی امتحان سے کم نہےں ہوتا بےنک کے متعلقہ اہلکار ان کو تےسرے درجے کی مخلوق سمجھتے ہےں اور ان سے پےشہ ور بھکارےوں جےسا سلوک روا رکھا جاتا ہے ان کی عمر کا خےال کئے بغےر انہےں ڈانٹ پلائی جاتی ہے اور عموماً اس قسم کے فقرے کسے جاتے ہےں بابا کےا کرتا ہے ، پےچھے ہٹو بےنک اہلکار پنشن کے موقع پر اپنے صارفےن سے عموماً ےہ کہتے سنے جاتے ہےں کہ آپ دو بجے کے بعد آئےں پنشن کا ےہ گند ختم ہو جائے۔دنےا کے ترقی ےافتہ ممالک مےں بزرگ شہرےوں کو سٹےزن الاﺅنس ،ہر قسم کے علاج معالجہ کی سہولت مفت اور بزرگ شہرےوں کی قےام گاہ مےں پناہ دی جاتی ہے لےکن ان کےلئے عزےزوں کی جدائی سوہان روح رہتی ہے وہ اپنے بےٹوں ،بےٹےوں ،پوتے پوتےوں اور نواسے نواسےوں کی فوٹو اپنے مےز پر سجائے حسرت بھری نظروں سے سارا سال اس انتظار مےں گزار دےتے ہےں کہ کب بزرگ شہرےوں کا دن آئے اور ان کے عزےزو اقارب ان کےلئے تحفے تحائف ےا کم از کم پھولوں کا گلدستہ لا کر انہےں پےش کرےں ۔وطن عزےز مےں کبھی کبھار مختلف سطحوں پر مختلف طبقوں کے حقوق کی صدائے باز گشت سنائی دےتی ہے لےکن ےہ موہوم اور نحےف صدا صرف صدا تک محدود رہتی ہے اور کوئی عملی اقدام اٹھانے سے قبل ہی راستے مےں دم توڑ دےتی ہے ۔معاشرے کا ہر فرد زبانی تو اس کا اعتراف کرتا ہے کہ بوڑھے ہماری متاع بے بہا ہےں لےکن عملی طور پر انہےں نظر انداز کےا جاتا ہے ۔حکومت اگر ان کی کوئی مدد کرنا چاہتی ہے تو انہےں فری طبی سہولتےں فراہم کرنے کا اہتمام کرے ۔ دواﺅں کی قےمتےں آسمان سے باتےں کر رہی ہےں حکومت کو چاہےے کہ پنشن ےافتہ عوام کی پنشن مےں کم از کم بےس فےصد اضافہ کےا جائے۔اس وقت پچاسی برس کے بزرگ عوام کےلئے پنشن مےں پچےس فےصد اضافہ منظور کےا گےا ہے ۔چند ہی لوگ اس عمر کو پہنچتے ہےں حکومت کو چاہےے کہ ےہ عمر گھٹا کر پچہتر برس کر دے تا کہ کچھ اور لوگوں کو بھی چند سال اس کا فائدہ ہو سکے ۔بوڑھے لوگوں کا سرماےہ نےشنل سےونگ مےں ہے مگر آمدنی کی شرح مےں بتدرےج کمی ہو رہی ہے اسے بڑھانا حکومت وقت کا فرض ہے۔ خےبرپختونخواہ ،سندھ اور اگر ہم ان بوڑھے لوگوں کا خےال نہےں کر پاتے تو اس کا حساب ہمےں دےنا ہوگا ۔ اےسے مجبور ،بے بس اور مظلوم لوگوں سے محبت کرنا اور ان کی تکالےف کا ازالہ کرنا ہی روحانی و مذہبی اقدار کی پاسداری کرنا ہے اور ےہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آج بوڑھے جس دور سے گزر رہے ہےں کل کو ہمےں بھی اس دور سے گزرنا ہے ۔