ملک بھرمیں قومی اسمبلی اورچاروں صوبائی اسمبلیوں پر آٹھ فروری دوہزارچوبیس کو ہونے والے عام انتخابات کاانعقاد پُرامن انداز میں ہوا جس میں کروڑوں لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیا۔ اب تقریباً انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے اورنتائج کاسلسلہ بھی آخری مراحل میں ہے ۔اس انتخابی عمل میں بڑے بڑے برج بھی الٹے۔ انتخابات سے ملک میں بے یقینی کا دور بند ہو گیا ہے۔اس الیکشن میں ریکارڈ امیدواروں نے حصہ لیا۔ اب سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ ملک میں استحکام کو یقینی بنائیں۔اب تک کے غیرسرکاری اورغیرحتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں آزادامیدواروں نے حاصل کی ہیں جن کی تعداد100 ہے اور ان میں زیادہ ترتعداد پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی ہے جبکہ مسلم لیگ ن 72، پیپلزپارٹی 54، ایم کیو ایم 17، ق لیگ 3نشستوں پر کامیاب ہوئی جبکہ جے یو آئی (ف)، استحکام پاکستان پارٹی نے دو، دو سیٹیں حاصل کرلیں۔ایم ڈبلیو ایم، بی این پی اور مسلم لیگ (ضیا)نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کرلی۔ واضح رہے کہ آزاد امیدواروں میں زیادہ تر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔عام انتخابات 2024 میں اب تک متعدد نمایاں سیاسی شخصیات اپنی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوچکی ہیں جس میں نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، آصف علی زر داری، بلاول بھٹو زر داری، مولانا فضل الرحمن، سردار ایاز صادق، یوسف رضا گیلانی، علی موسیٰ گیلانی، فاروق ستار، گوہر علی، علی محمدخان، عمر ایوب، اسد قیصر شامل ہیں جبکہ انتخابات میں بڑے بڑے برج بھی الٹ گئے، رانا ثنا اللہ، سعد رفیق، ایمل ولی، شیخ رشید، امیر حیدر ہوتی، سرور خان، سرور خان، چوہدری نثار علی خان، جاوید لطیف، محمود خان اور شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو کو حالیہ الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ نوازشریف، مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کو بھی قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر شکست ہوئی۔ادھرچاروں صوبائی اسمبلی کے غیرسرکاری اورغیر حتمی نتائج کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن)اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں جبکہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ ملکر حکومت بنانے کیلئے کوشاں ہیں جس کےلئے رابطے بھی شروع کردیئے گئے ہیں ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی صوبائی اسمبلی کی83نشستیں جیت کرسب سے بڑی جماعت بن گئی ایم کیوایم پاکستان کو 27سیٹیں ملیں جبکہ 14 حلقوں میں آزاد امیدوار فاتح قرار پائے ۔پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 135نشستیں ن لیگ کے حصے میں آئیں جبکہ 135آزادامیدواروں نے میدان مارلیا پیپلز پارٹی کو 10سیٹیں مل سکیں ۔ خیبرپختونخوا میں آزاد امیدواروں کا راج رہاجن کے حصے میں 87 نشستیں آئیں جبکہ جے یوآئی (ف)7 جبکہ ن لیگ 5سیٹوں پر فاتح رہی ۔ بلوچستان اسمبلی کی پیپلزپارٹی 9جبکہ ن لیگ 8نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ این اے 54 میںدو سابق وزرا 40سال بعد سیاست سے آﺅٹ ہوگئے۔ چوہدری نثار اور غلام سرور کو پہلی مرتبہ عوام نے بہت کم ووٹ دئیے اوریہاں یہاں نئے چہروں کا انتخاب کیاگیا۔دونوں سیاستدان گزشتہ 40سالوں میں سیاست میں ان کی فعال شرکت کے بعد این اے 54 کے سیاسی میدان سے باہر ہو گئے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں یہ پہلا الیکشن ہے جب یہ دونوں سابق وزرا 1985کے بعد گزشتہ دس انتخابات میں پہلی یا رنر اپ پوزیشن حاصل نہیں کر سکے۔ ووٹرز نے روایتی چہروں کو مسترد کر دیا ہے اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں پر نئے چہروں کو ووٹ دینے کا انتخاب کیا ہے۔ اب ووٹرز نے قومی اسمبلی کی این اے 54 کی نشست اور پی پی 12 اور پی پی 13 کی دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پہلی بار تمام نئے چہروں کو منتخب کیا ہے۔ حلقہ بندیوں نے سابق وفاقی وزرا کے خلاف ووٹ دیا ہے جیساکہ یہ دونوں مستقل جیت میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے۔ چوہدری نثار علی خان کو صرف 19,993 ووٹ اور غلام سرور خان کو 16,889ووٹ ملے۔ چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان پہلی بار 1985 میں ٹیکسلا اور واہ کینٹ کے حلقوں سے غیر جماعتی انتخابات میں ایم این اے اور صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ پھر دونوں الگ ہو گئے اور مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہو گئے۔ 1985 سے دونوں شخصیات مختلف ادوار میں منتخب ہوتی رہی ہیں۔ چوہدری نثار علی خان پی ایم ایل(این)سے وابستہ رہے لیکن انہوں نے پی ایم ایل(این)سے علیحدگی اختیار کرنے کو ترجیح دی اور 2018کے انتخابات میں این اے کی نشست پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا لیکن وہ ہار گئے۔ادھرنوشہرہ میںپرویز خٹک خاندان کا سیاسی صفایا ہوگیا، پرویز خٹک اپنی دونوں نشستیں ہار گئے۔پرویز خٹک کے دونوں بیٹے اور داماد بھی ہارگئے۔ پی کے 85 سے اسماعیل خٹک، پی کے 86 سے ابراہیم خٹک شامل ہیں۔ پی کے 89 سے داماد عمران خٹک بھی ہار گئے۔جمہوریت کاحسن اسی میں ہے کہ ہر سیاسی جماعت اور شخص میں شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ خوش آئند بات ہے کہ لاہور کے حلقہ این اے 122میں مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو سردار لطیف کھوسہ نے بڑے مارجن سے شکست دے دی جس پر لیگی رہنما نے مخالف فاتح آزاد امیدوار کو مبارکباد دی۔ آزاد امیدوار سردار لطیف کھوسہ ایک لاکھ 17 ہزار 109 لیکر کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ سعد رفیق 77 ہزار 907 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔سعد رفیق نے سردارلطیف کھوسہ صاحب کو دلی مبارکباد دی اورکہاکہ عوامی فیصلے پر خوش دلی سے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 47اور 48 سے آزاد امیدوار مصطفی نواز کھوکھر نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ مصطفی نواز کھوکھر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اپنی شکست کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ابھی تک انتخابی نتائج کے مطابق مرکزمیں حکومت بنانے کےلئے کسی بھی سیاسی پارٹی کی واضح اکثریت نہیں ہے اورمخلوط حکومت بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں نے توڑ جوڑ شروع کردیاہے ۔
بھارت میں مسجد کی شہادت،مسلمانوں پرمظالم کب تک؟
شدت پسند بی جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں نے بھارت میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پرجھوٹے الزامات اور وحشیانہ تشدد بھارت میں معمول بن چکا ہے۔بھارت میں برسراقتدار مودی حکومت خطے کے ممالک کی سلامتی اور امن کےلئے مسلسل خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ مودی خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی بجائے ہندو توا ازم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔مودی اور اس کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ ہر شخص خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ بھارت سیکولر ریاست کی بجائے ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے۔دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔گزشتہ روزبھارتی ریاست اترا کھنڈ میں مسجد اور مدرسے کو شہید کرنے کیخلاف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کی جس میں 5مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ واقعہ ریاست کے ضلع ہندوانی میں پیش آیا۔ علاقے میںحالات انتہائی کشیدہ بتائے جا رہے ہیں، ریاستی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد اور مدرسہ غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے تھے جبکہ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مسجد دو دہائی قبل تعمیر کی گئی تھی جبکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باوجود اسے ناجائز طور پر شہید کردیا گیا ہے۔ جیسے ہی مسماری شروع ہوئی، خواتین سمیت مشتعل رہائشی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آ کر اس کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ ہجوم نے پولیس کی کار سمیت کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی جس سے کشیدگی بڑھ گئی۔بم بھول پورہ پولیس اسٹیشن کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے بعد میں ضلع مجسٹریٹ نے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا۔ بھارت میں جو مسلمان تشدد کا شکار ہوئے اور اپنی جان سے گئے، کیا ان کے وارثان کو اب تک کوئی انصاف ملا؟ کیا بھارت کا انصافی سسٹم بالکل اپاہج ہو چکا ہے؟ بھارت کے مہذب اور عزت دار شہریوں کے ساتھ بدسلوکی، ناانصافی، ظلم اور تشدد کب تک کیا جائے گا۔
اداریہ
کالم
عام انتخابات مکمل،نتائج تسلیم کرناہوںگے
- by web desk
- فروری 11, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 773 Views
- 1 سال ago