سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پرچیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے گزشتہ روز ایوان صدر میںصدر مملکت سے تفصیلی ملاقات کی اور آئندہ عام انتخابات کے آزادانہ ، منصفانہ ، غیر جانبدارنہ انعقاد اور تاریخ کے تعین کے حوالے سے گفت وشنید کی جس کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجہ نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان منصور عثمان اعوان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چار اراکین کے ہمراہ ایوان صدر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی۔بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں ملک میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور صدرمملکت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں اور انتخابات کے حوالے سے کی گئی پیش رفت کو سنا۔ایوان صدر نے بتایا کہ تفصیلی بحث کے بعد اجلاس میں متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات 8فروری 2024کو کرانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔گزشتہ روزعام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہو گا۔عدالت عظمی نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جانے پر تصور کیا جائے یہ پتھر پر لکیر ہے، ہم الیکشن کی تاریخ بدلنے نہیں دیں گے، اسی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنوائیں گے، عدالت اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروائے گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکرس دیئے کہ صدرمملکت کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ انتخابات تو وقت پر ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دارہیں،صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے ہی تاریخ دینی چاہیے۔ ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے ، صدرنے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتے رہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم اس معاملے کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔ علی ظفر نے بتایا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں،کیا آپ چاہتے ہیں ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں؟۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے،کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، آپ کےمطابق تاریخ دینا صدر کا اختیارہے، پھرآپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے،اگرصدر نے بات نہ مانی توہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین پاکستان میں ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے؟، جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے۔عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ملک میں ایک ابہام اور بے چینی پائی جارہی تھی اور الیکشن کمیشن نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے دی جانےوالی رولنگ اور صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کیلئے دی جانے والی تاریخ پر عملدرآمد کرانے سے معذوری ظاہر کی تھی اور یہ موقف اپنایا تھا کہ ابھی حلقہ بندیاں ہونا باقی ہیں اس کے علاوہ مقررہ تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کےلئے درکار فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ ہے جب صدرمملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کی دعوت دی تو الیکشن کمیشن کے ذرائع نے ایوان صدر ایک مکتوب تحریر کیا تھا جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ الیکشن کی حتمی تاریخ دینا الیکشن کمیشن آف پاکستان کاحق ہے جو اسے آئین پاکستان دیتا ہے اور اس حوالے سے صدر مملکت کسی قسم کی تاریخ نہیں دے سکتے ، کئی ماہ سے یہ معاملہ حل طلب تھا اور اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا تھا بہت سارے آئینی مسائل پیدا ہورہے تھے ، ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی خلاف ورزی کی جارہی تھی اور دوسرا صدر مملکت کی آئینی حیثیت کو بھی چیلنج کیا جارہا تھا چنانچہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر یہ حکم دیا ہے کہ جو تاریخ آئے گی اس پرالیکشن ہوکر رہیں گے اور کسی نئی تاریخ یا الیکشن کے التوا کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ، اس کے بعد شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ انتخابات اپنے وقت مقررہ کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے ،یہ ایک خوش آئند بات ہے جو تمام اہل پاکستان کے لئے اس بات کی یقین دہانی ہے کہ مستقبل میں آئین پاکستان سے کسی قسم کی رو گردانی کا موقع نہیں آنے دیا جائیگا ، پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کی خوبصورتی آئین پر عملدرآمد کرنے سے ہے ، اب اس چہرے کو مزید خوبصورت بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انتخابات غیر جانب دارانہ اور منصفانہ منعقد ہو ں اور اس میں تمام پارٹیوں کو حصہ لینے کی اجازت ملنا چاہیے اور کوئی جماعت ایسی نہ رہے کہ جیسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو۔
وزیراعظم کی پی بی اے کے وفد سے ملاقات
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں مگر ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں برسر اقتدار حکومتیں ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر اشتہارات کی تقسیم کا فارمولہ اپنائے ہوئے تھیں، تحریک انصاف کے دورحکومت پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کا گلا گھونٹے کےلئے بھی اشتہارات کا ہتھیار استعمال کیا گیااور وہ تمام ادارے حقائق اورمیرٹ کی بنیاد پررپورٹنگ کرتے رہیں انہیں اشتہارات سے محروم رکھا گیا، ان میں سرفہرست پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کے اخبارات اور روزٹی وی رہا ،اس کے اشتہارات کے نرخوں میں یکدم کمی واقع کردی گئی مگر چونکہ اس کے سربراہ ایس کے نیازی ایک بہادر اوردلیرشخصیت کے مالک ہیں انہوں نے یہ تمام خسارہ برداشت کرنے کے باوجود اپنے سٹاف کو اشتہارات نہ ملنے کے مضر اثرات سے بچائے رکھا اور وقت پرتنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بنائے رکھا ، تحریک انصاف کے دور پاکستان گروپ آف نیوز اور روز ٹی وی پر یہ الزام عائد کیا گیاکہ یہ گروپ برسر اقتدارحکومت کی اتنی حمایت نہیں کرتا جتنی کہ اسے کرنی چاہیے اس کی وجہ یہ تھی کہ ایس کے نیازی اپنے مقبول ترین ٹی وی شو سچی بات میں بے لاگ تجزیے کیا کرتے تھے اور حکومت وقت پرکڑی تنقید کیا کرتے تھے ، ایس کے نیازی اپنے پروگراموں میں اس وقت کے وزیر اعظم کو اکثر یہ مشورہ کھلے عام دیاکرتے تھے کہ وہ انتقام کی روش نہ اپنائیں اور عساکیر پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کریں اور سیاسی مسائل سیاست کے میدان میں حل کریں ، یہاں یہ بات نہایت دکھ کے ساتھ لکھنا پڑتی ہے کہ ان کے بعد برسر اقتدار آنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی اشتہارات کی بندش کا سلسلہ جاری رکھااور واجبات بھی ادا نہیں کئے تاہم اب اس بات کا امکان پیدا ہوا ہے کہ شاید پچھلی ادائیگیاں بھی ہوجائیں اور اس مقبول ترین گروپ کے اشتہارات کے ریٹس پر بھی نظر ثانی کردی جائے ، اسی حوالے سے گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی۔وزیراعظم نے براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد کو اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی کا یقین دلایا،ملاقات میں ملک میں ذرائع ابلاغ، خصوصا برقی ذرائع ابلاغ کے مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی، وفد نے وزیراعظم کو اشتہارات کے ضمن میں حکومت کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی کے مسئلے کے حوالے سے آگاہ کیا،وزیراعظم نے براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد کو اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی کا یقین دلا تے ہوئے وزارت اطلاعات و نشریات کو اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ہدایت کی۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ذرائع ابلاغ ریاست کا چوتھا ستون ہیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی اور عوام کی ذہنی اور فکری تربیت میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ حکومت اور ذرائع ابلاغ کے موثر اور مربوط رابطے سے عوام حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے باخبر رہ سکتے ہیں۔گڈ گورننس اور حکومتی کارکردگی کے احتساب میں ذرائع ابلاغ کا کلیدی کردار ہے، امید ہے کہ ذرائع ابلاغ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے ذریعے جمہوریت کے استحکام میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کے صفحات گواہ ہیں اور روز ٹی وی کے پروگرام بھی کہ اس نے ہمیشہ نظریہ پاکستان ،اسلام اور افواج پاکستان کی حمایت کھلم کھلا کی ہے۔
اداریہ
کالم
عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان
- by web desk
- نومبر 4, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 590 Views
- 1 سال ago