کالم

عام انتخابات کے بعد والا پاکستان

آٹھ فروری کے عام انتخابات نے پاکستانی سیاست میں کسی کو بھی خاص نہیں رہنے دیا۔ ساری سیاسی قوتیں عملًا سیاسی کمزوریاں بن کر رہ گئی ہیں۔جہاں تک سیاسی جماعتوں کی کمزوری کے علاج کا تعلق ہے تو وہ سب کو معلوم ہے ۔آٹھ فروری کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کے نہ صرف بازو ،بلکہ ہر قابل ذکر چیز مروڑنے کے بعد ،اور سر توڑ کوشش کر کے اس کے راستے میں ہزار طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس طرح اس معتوب سیاسی جماعت کو مٹانے کے عوض مقبول کر کے رکھ دیا۔ پاکستان میں اب کی بار حیرت انگیز طور پر ووٹرز نے اپنے طرز عمل سے سب کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے ہیں۔ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ممکن حد تک شعبدہ بازی بھی کی گئی ، کہیں ہو سکی ،کہیں نہ ہو پائی ،لیکن پاکستان میں اب انتخابی چور بازاری اس قدر عام ہو چکی ہے اور پاکستانی ووٹرز اس چور بازاری کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ پورے ملک میں کوئی بھی حیران و پریشان نظر نہیں آرہا ۔پاکستانی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو نہ تو اپنی سیاسی جماعت کا نام استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی ، نہ ہی انہیں اپنا منفرد اور مقبول انتخابی نشان مل پایا تھا۔اس سیاسی جماعت کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور انہیں قدرے غیر مانوس ، نہایت بے ہودہ اور بعض صورتوں میں فحش قسم کے انتخابی نشانات سے نوازا گیا۔اس سیاسی جماعت سے وابستہ امیدواروں کیلئے انتخابی مہم چلانے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، کہ گھروں پر پولیس چھاپے مار رہی تھی انتخابی دفاتر میں بیٹھے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا کھیل جاری تھا ۔ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق اس جماعت کی ساری انتخابی مہم پنجاب کے ایک لوک گلوکار کے گانے نے چلائی تھی،اس گانے میں ناک میں اٹکائے جانے والے کوکے کے رات کو کہیں گر جانے اور اسے تلاش کرنے کا ذکر اور قیدی نمبر آٹھ سو چار کا حوالہ دھرایا جاتا تھا ۔اس گانے نے بقیہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کو بے معنی بنا کر رکھ دیا تھا۔اور امر واقعہ تو یہ ہے کہ اس گانے نے ووٹرز کی ذہن سازی کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ستم ظریف جس درجے اور جس رتبے کا محقق ہے ،اسکے حوالے سے اس تحقیق کو موضوع بحث بنانا ضروری نہیں، لیکن انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو پھر اس لوک گیت کی اثر انگیزی کو ماننا پڑتا ہے۔اس معتوب سیاسی جماعت کی تحویل میں ہر وہ تصور، ہر وہ نظریہ اور ہر وہ نعرہ موجود ہے، جسے بنیاد بنا کر مہربان اس ملک کی سیکولر سیاست کا رجحان رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کو مطعون کیا کرتے تھے۔ اسکے راہنما کے خلاف بدترین اخلاقی الزامات لگائے گئے،اسے بدکردار، منشیات کا عادی قرار دیا گیا۔پاکستانی معاشرے میں کسی مرد کو مقبول و محبوب بنانے کے لیے یہ سارے الزامات تیر بہ ہدف قسم کے نسخے خیال کرنے چاہئیںکیونکہ اس طرح کے الزامات اس مرد کے ارد گرد امکانات کی ایک ایسی دھند بکھیر دیتے ہیں ،جس میں ہر کوئی گم ہونا پسند کرتا ہے ۔جب کوئی حربہ کام نہ آیا تو مذہبی حوالے سے اسکے ایک نکاح کو مشکوک بنانے کا کھیل رچایا گیا۔بس اس پر کفر ، توہین مذہب اور توہین رسالت کا الزام نہیں لگایا جا سکا ، اب اس کی سیاسی جماعت کے وابستگان قومی اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باوجود حکومت کرنے کے حق سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔اس راہنما نے اپنے پہلے چار سالہ دور حکومت میں بھی کسی بہتر کارکردگی اور کسی مثالی طرز حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، اب بھی اس سے کسی ارفع کارکردگی کو توقع کسی کو بھی نہیں ہے لیکن اسے سسٹم کے گلے میں پھنسی ہڈی کے طور پر پسند کیا جا رہا ہے اور بس۔ دوسری طرف دیکھئے کہ؛ اس بار لندن سے ن لیگ کے موجد نواز شریف کو ،جو قانونی طور پر مفرور ، طبی طور پر بیمار اور عملی طور پر زیر علاج تھے، سو طرح کی یقین دھانیاں کرا کر واپس پاکستان لایا گیا تھا ۔ نوازشریف پاکستانی سیاست کے ایسے لاڈلے سیاست دان ہیں،جو حکومت چھن جانے اور افتاد پڑنے پر بیرون ملک قیام و طعام اور آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ تین بار تو یہ سب کچھ ہو بھی چکا ہے ۔ستم ظریف حیران ہے کہ اس بار نواز شریف کو ہزار طرح کے سہانے خواب دکھا کر اور وزیراعظم بنانے کا چکمہ دے کرواپس کیوں بلایا گیا تھا؟چند روز سے وہ مری کی سرسبز اور برف پوش پہاڑیوں کی طرف سے دردناک اور غمگین گانوں کی آوازیں آنے کی افواہوں پر بھی یقین کئے بیٹھا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ بردار خورد شہباز شریف اور دختر بزرگ مریم صفدر نے انتخابی مہم میں تقریریں کروا کر نواز شریف کو پہلے خوب گھمایا ، پھرایا، تھکایا ، اور ایک تہائی اکثریت سے جیتنے کا سپنا دکھایا تھا ۔ لیکن آٹھ اور نو فروری کی درمیانی شب جس طرح کے انتخابی نتائج سامنے آنا شروع ہوئے،اس نے ایک تھکے ہارے سیاستدان کا رہا سہا دل بھی توڑ کر رکھ دیا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ستم ظریف اس بات پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ ساری قوم کو بلا اختلاف رنگ و نسل اور سیاسی وابستگی ،نواز شریف کےساتھ ہونےوالے مذاق پر اجتماعی احتجاج کرنا چاہئے۔اس احتجاج کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ شاید صرف یہ ہو کہ ان میں سے کوئی بھی صورت دکھانے کے قابل نہیں ہے۔ پاکستان میں ان انتخابات کے دوران ، اگر کسی سیاستدان کےساتھ زیادتی ہوئی ہے ،تو وہ اس وقت صرف نواز شریف ہے ۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ؛ نواز شریف کو دلہن بنا کر، رخصتی شہباز شریف کی کر دی گئی ہے۔اب باو¿ جی تجربے کی زنبیل سنبھال کر مری میں بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہے اور دردناک فلمی گیت گنگنا رہے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ نواز شریف کو جن پہ تکیہ تھا ،ان میں سے ایک وزیراعظم بننے والا ہے اور دوسری وزیر اعلیٰ جبکہ باوجی کو مری میں بٹھا کر یقین دلایا جا رہا ہے کہ مری کا موسم اور ماحول بھی لندن سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔شرلی بے بنیاد کے اپنے ہی خیالات اور تصورات ہوتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ کسی نے ن لیگ کو اپنی لاڈلی سیاسی جماعت اور نواز شریف کو دو تہائی اکثریت سے جتانے کا جھانسہ دے کر اور اسی معتوب سیاسی جماعت کے ہاتھوں دھلائی کروا کر ، نواز شریف کے موثر بہ ماضی نعرے ”مجھے کیوں نکالا“کا مدلل جواب تاریخ کی کتب میں درج کروا دیا ہے ۔جہاں تک شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے والی بات ہے تو ،چونکہ آنےوالے کئی سالوں تک پاکستان کی معیشت کا انحصار قرض اور بھیک پر مدار کرتا ہے ،تو شہباز شریف سے بہتر پیسے مانگنے کا ڈھنگ جنوبی ایشیا میں دوسرا نہ ملے گا۔جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ،تو پیپلز پارٹی کا ن لیگ کےساتھ تعامل یا تعاون فریب طلبی کے سوا کچھ نہیں ہے ، لیکن دوسری طرف اسکے لیے سندھ ،صدارت ، چند ارفع آئینی منصب اور حساس ترین صوبے بلوچستان کی حکومت کسی بھی طرح خسارے کا سودا شمار نہیں کیا جا رہا ۔یہ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد والی تازہ صورتحال ہے ، یہ سارے مناظر پاکستانیوں کےلئے نئے ہرگز نہیں ہیں ۔ پہلے فلموں میں چند ایک مزاحیہ سین ہوا کرتے تھے، اور ایک آدھ مزاحیہ اداکار۔اس بار تو پوری فلم ہی مزاحیہ بلکہ مذاقیہ نظر آ رہی ہے ،ساری فلم میں ہیرو نام کا کوئی بندہ یا ہیروئن قسم کا کوئی کردار موجود نہیں ہے۔ہر طرف جو منظر دکھائی دے رہا ہے،یہ فلم نہ صرف خود فلاپ ہو گی ،بلکہ اپنے ساتھ پوری فلم انڈسٹری کو بھی تباہ کرنے صلاحیت رکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے