اداریہ کالم

عام انتخابات2024ءمیدان سج گیا

طویل سیاسی بحران کے بعد بالآخر وہ دن آن پہنچا جس کےلئے کل تک ملک کی عدالتیں بھی میدان کارزار بنی رہیں۔ آج 8فروری ہے اورملک بھر میں12ویں انتخابات کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے،جبکہ انتخابات کیلئے ووٹنگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں چھ لاکھ سکیورٹی اہلکار تعیناتی کا عمل بھی مکمل ہو گیا ہے۔12کروڑ 85لاکھ 85ہزار760رجسٹرڈ ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے، چار انتخابی حلقوں میں امیدواروں کی اموات کی وجہ سے پولنگ ملتوی کر دی گئی ہے۔ملک بھر میں 14لاکھ 90 ہزار انتخابی عملہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے گا، ملک بھر میں 90ہزار675پولنگ اسٹیشنز اور 2لاکھ 66 ہزار 398پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں16766 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹہ بعد جاری کئے جا سکیں گے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پولنگ ڈے پر موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند نہیں ہوگی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق پولنگ صبح 8 بجے سے بغیر کسی وقفہ کے شام 5 بجے تک جاری رہے گی۔ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی 3 نشستیں ہیں جن پر 10 لاکھ 83 ہزار 29 ووٹرز اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141اور پنجاب اسمبلی کی 297نشستوں پر اپنے نمائندوں کے انتخاب کیلئے 7 کروڑ 32لاکھ 7 ہزار896ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انتخابات کے التو ا کی بے یقینی کے خاتمے کے بعد اب ضروری ہے یہ الیکشن پر امن اور شفاف بھی رہیںکیونکہ اگر الیکشن پر امن نہ اور یا شفاف نہ رہے تو دونوں صورت میں ملک کا ہی نقصان ہے۔نگران حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس ضمن میں تمام ضروری اقدامات بروئے کار لا رہے ہیں۔نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے دولتِ مشترکہ کے مبصر گروپ کے سربراہ ڈاکٹر گ±ڈلَک ایبیلے جانتھن کی وفد کے ہمراہ ملاقات ہوئی ہے ہے جس میں وزیر اعظم نے وفد کی انتخابات 2024 کے حوالے سے پاکستان آمد کا خیر مقدم کیا۔ وزیر اعظم نے دولت مشترکہ کی سیکریٹری جنرل پیٹریشیاءسکاٹلینڈ کی پاکستان اور دولتِ مشترکہ کے تعلقات میں مضبوطی کیلئے اقدامات کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات 2024 کی شفافیت کیلئے بین الاقوامی مبصرین کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہیں حکومت بین الاقوامی مبصرین کو انتخابات 2024 کے جائزے کیلئے تمام تر سہولیات فراہم کرے گی، نگران حکومت ملک میں شفاف انتخابات کے کامیاب انعقاد کیلئے ہر ممکن اقدامات یقینی بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت ہر جماعت کو اپنی انتخابی مہم کیلئے موزوں ماحول فراہم کر رہی ہے نگران حکومت یقینی بنا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کے کامیاب انعقاد کیلئے تمام سہولیات فراہم کی جائیں انتخابات 2024 میں یہ فیصلہ عوام کرینگے کہ پاکستان کی قیادت کس جماعت کے حوالے کرنی ہے۔ اس موقع پر وفد نے سیکٹری جنرل دولت مشترکہ کی جانب سے وزیرِ اعظم کو خیر سگالی کا پیغام دیا۔اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے،اس فیصلہ تو چند دن بعد ہو جائے گا،تاہم حالیہ عام انتخابات اس مرتبہ گلی محلوں میں وہ انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آئی جو عام انتخابات کا خاصا ہوتا ہے۔ حالانکہ 2018کے انتخابات کے مقابلے میں امیدواروں کی تعداد ڈیڑھ سو فیصد زیادہ ہے ۔پوری قوم کی نظریں الیکشن کمیشن پر ہیں جس نے درپیش چیلنجوں اور مشکلات کے باوجود تمام انتظامات مکمل کرلئے ہیں۔ پہلی بار شکایات درج کرانے کےلئے واٹس ایپ کا استعمال کیا جائیگا ۔ملک بھر میں انٹر نیٹ کنکشن نہ ہونے کے باوجود الیکشن مینجمنٹ سسٹم نتائج جمع کرے گا جس پر اگرچہ بعض حلقوں کے تحفظات ہیں تاہم الیکشن کمیشن نے اسے آرٹی ایس سے بہتر قرار دیا ہے۔ ان انتخابات کو 100سے زیادہ مبصرین مانیٹر کریں گے۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابات کا انعقاد پرامن ہو ۔ اس سلسلے میں عوام اور سیاسی قیادتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام پرظلم
عوام مہنگائی کے ہاتھوں پہلے بری طرح پس رہے ہیں اوپرسے گیس کی قیمتیں پھربڑھائی جارہی ہیں اورگیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔حکومت غریب عوام پر پے درپے مہنگائی کے بم گرا رہی ہے۔ آئے روز اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ گیس کی قیمتیں بڑھنا انتہائی ناانصافی اور ظلم ہے۔ گزشتہ روز اوگرا نے 2 فروری سے سوئی ناردرن کے ٹیرف میں 35.1اور سوئی سدرن کے ٹیرف میں 8.5فیصد کا بڑا اضافہ کر دیا۔ اوگرا نے اضافے کا نوٹیفکیشن منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو اطلاق کےلئے بھجوا دیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سوئی ناردرن سسٹم پر گیس کی اوسط قیمت 1238.68 روپے سے بڑھا کر 1673.82روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی۔ سوئی ناردرن کو صارفین سے 180 ارب روپے مزید وصول کرنے کی اجازت دی گئی۔سوئی سدرن کی گیس کی اوسط قیمت 1350.68 روپے سے بڑھا کر 1466.40روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی۔ سوئی سدرن کو صارفین سے 48 ارب روپے مزید وصول کرنے کی اجازت دی گئی۔ اوگرا سوئی کمپنیوں سے گیس چوری کی شرح کم کروانے میں ناکام رہی۔ اوگرا کے مطابق سوئی کمپنیوں نے گیس چوری کم کرنے کے لیے اوگرا کو ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا اور رواں مالی سال گیس چوری سے سوئی ناردرن کو 14 ارب 77 کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ اوگرا نے کمپنی کے منافع پر عائد 10 فیصد سپر ٹیکس کا بوجھ صارفین پر ڈالنے کی منظوری دے دی۔ حکومت نے یکم جولائی سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنیوں سے سپر ٹیکس وصولی شروع کی تھی اور حکومت کی ہدایت تھی کہ ٹیکس وصولی کو صارفین پر منتقل نہ ہونے دیا جائے۔ سوئی ناردرن کو کرک میں دفتر کھولنے کی اجازت بھی دی گئی جس کےلئے 10کروڑ روپے سالانہ کے اخراجات کی بھی منظوری دی گئی۔رواں مالی سال 2023-24 میں گیس کی قیمتوں میں یہ دوسرا اضافہ ہے، ریگولیٹر نے 2 فروری 2024 کو گیس کی تجویز کردہ قیمت میں 1291روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی اوسط قیمت، جو پہلے 2 جون 2023 کو طے کی گئی تھی، سے اوسطاً 23.16فیصد اضافہ کرکے 1590روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی سفارش کی تھی۔آئی ایم ایف پہلے ہی حکومت سے خواہش کرچکا ہے کہ گیس پر نظرثانی کے عمل کو دو سال میں لاگو کیا جائے تاکہ مقامی گیس کے شعبے میں گردشی قرضے کے ذخیرے کو کم کیا جاسکے جو اس وقت 1250 ارب روپے ہے۔ اوگرا دو سال میں گیس کی قیمتوں کا اعلان کرنے کا پابند ہے، حکومت کسی بھی موجودہ مالی سال میں یکم جولائی اور پھر یکم جنوری سے گیس کی قیمتیں نافذ کرنے کی پابند ہے۔غریب اور متوسط طبقے کو کھانے کے ساتھ بجلی اور گیس کے بل بھرنے کے بھی لالے پڑ ئے ہوئے ہیں،سفید پوش افراد کی تنخواہوں کابڑاحصہ مکان کے کرائے، راشن ،بچوں کے تعلیمی اخراجات ،بجلی اورگیس کے بلوں میں چلاجاتا ہے۔حقیقت میں آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط کی قیمت عوام کو چکاناپڑ رہی ہے ۔حکمرانوں نے محض دعوﺅں کے ذریعے عوام کو طفل تسلیاں دی ہیں جبکہ مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ لوگ روزمرہ اشیاءکی ضرورت بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہرچیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ماضی کی غلط پالیسیوں سے موجودہ معاشی بحران ہے۔دراصل قرضوں نے ہماری معیشت کو مکمل طورپرجکڑرکھا ہے جس کی وجہ سے آئے روز بجلی، گیس اورپٹرول کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں کیونکہ قرضے کی قسط حاصل کرنے کےلئے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرناہوتی ہیںجب قرضوں کی بیساکھیوں کے ذریعے معیشت کوچلایا جائے گا تو نتائج مثبت کسی صورت برآمدنہیں ہوگے کیونکہ ماضی میں بھی تو قرضے لیکر ہی معیشت کے پہیہ کو چلایاگیا۔لہٰذاعام انتخابات ہونے کے بعد نئی منتخب حکومت کو یہی مشورہ ہوگا کہ وہ معاشی پالیسیوں کو بہتر سمت میں لے جانے کےلئے قرضہ لینے پرزوردینے کی بجائے پیداواری قوت کو بڑھائے تاکہ ملکی معیشت اپنے پاﺅں پرکھڑی ہوسکے وگرنہ قرض کی پالیسی مزیدمعاشی بحرانوں کاسبب بنے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے